میں نے دو بکریوں کی قربانی کی ان میں سے ایک میری اور میرے زندہ اور فوت شدہ اہل خانہ کی طرف سے تھی اور دوسری میرے فوت شدہ والدین کی جانب سے تھی، ہوا یوں کہ میں سلاٹر ہاؤس میں تھا اور میں نے خود جانور ذبح نہیں کیے، جس وقت ذبح کرنے والے شخص نے جانوروں کو ذبح کیا تو میں نے عربی میں کہا: بسم اللہ ، واللہ اکبر، یہ جانور تیری طرف سے ہے اور تیرے ہی لیے ہے، اور یہ میری اور میرے زندہ و فوت شدہ اہل خانہ کی طرف سے ہے ۔ جبکہ دوسرے جانور کو ذبح کرتے وقت میں نے کہا: یہ جانور میرے فوت شدہ والد کی طرف سے ہے۔ یہ الفاظ قربانی ذبح کرنے والے شخص نے نہیں کہے، تو کیا میرے لیے یہ الفاظ کہنا فرض تھا؟ یا میرے سامنے جانور ذبح کرنے والا شخص کہے گا؟ اور کیا یہ قربانی صحیح ہوئی ہے؟
قربانی کرنے والے نے خود تسمیہ پڑھی اور نیت کی؛ ذبح کسی اور سے کروایا
سوال: 296337
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ:
اول:
جانور ذبح کرتے ہوئے تسمیہ پڑھنا واجب ہوتا ہے، جمہور اہل علم کے موقف کے مطابق تسمیہ کے بغیر ذبح کیا ہوا جانور حلال ہی نہیں ہوتا۔
اور یہاں اس شخص کا تسمیہ پڑھنا معتبر ہو گا جو ذبح کر رہا ہے، یعنی قصاب اور قصائی وغیرہ جو ذبح کرتے ہیں وہ تسمیہ پڑھیں، قربانی کے مالک کی طرف سے پڑھی ہوئی تسمیہ معتبر نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ زاد المستقنع کی شرح میں کہتے ہیں:
“مصنف کہتے ہیں: (یا کسی مسلمان کو ذمہ داری سونپ دے اور خود حاضر بھی ہو) یعنی مطلب یہ ہے کہ: کسی مسلمان کو قربانی کا جانور ذبح کرنے کی ذمہ داری سونپ دے اور قربانی کا مالک خود ذبح کے وقت حاضر ہو۔
یہاں تسمیہ وہ شخص پڑھے گا جو جانور ذبح کر رہا ہے؛ کیونکہ ذبح کرنے کا عمل وہی کر رہا ہے، تو وہ اپنے ذبح کرنے کے عمل پر تسمیہ پڑھے گا۔” ختم شد
“الشرح الممتع” (7 / 456)
تسمیہ کا حکم: اگر ذبح کرنے والا شخص تسمیہ بھول جائے تو اس کا ذبیحہ حلال ہے، اس صورت میں اس کا عذر قبول کیا جائے گا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ “المغنی” (13 / 290)میں کہتے ہیں:
“جانور ذبح کرتے وقت تسمیہ پڑھنے کے متعلق امام احمد کا مشہور موقف یہ ہے کہ اگر یاد ہو تو تسمیہ پڑھنا شرط ہے، تاہم بھول جانے سے تسمیہ پڑھنا ساقط ہو جائے گا، یہ موقف ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، اسی کے امام مالک، ثوری، ابو حنیفہ اور اسحاق قائل ہیں۔
جس جانور کو ذبح کرتے ہوئے آپ تسمیہ بھول جاتے ہیں تواسے حلال اور جائز کہنے والے فقہائے کرام میں عطاء، طاؤس، سعید بن مسیب، حسن بصری، عبد الرحمن بن ابی لیلی، جعفر بن محمد اور ربیعہ شامل ہیں۔۔۔
ہماری دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے: “جو تسمیہ پڑھنا بھول گیا تو اس پر کوئی حرج نہیں۔”
اور ویسے بھی جن کا ہم نے نام ذکر کیا ہے ان کا صحابہ کرام میں کوئی بھی مخالف نہیں ہے۔
نیز اس صورت میں اللہ تعالی کے فرمان:
وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ
ترجمہ: اور وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، یہ نافرمانی ہے۔[الانعام: 121]
کا مطلب یہ ہو گا کہ: یہ آیت ایسی صورت کے متعلق ہے جس میں جان بوجھ کر تسمیہ نہ پڑھی گئی ہو؛ اس کی دلیل اللہ تعالی کے اس فرمان : وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ میں موجود ہے ؛ کیونکہ جس پر تسمیہ بھول کر نہ پڑھی گئی ہو تو اسے کھانا نافرمانی نہیں۔” ختم شد
ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جانور ذبح کرتے ہوئے تسمیہ بھول جانے سے جانور حرام نہیں ہوتا؛ کیونکہ اللہ تعالی کے فرمان میں یہ الفاظ موجود ہیں: وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ کہ یہ نافرمانی ہے، جبکہ بھول جانا نافرمانی نہیں ہوتی، اس پر سب کا اجماع ہے، [اس لیے ایسے جانور کو کھانا حرام نہیں ہے جس کو ذبح کرتے وقت مسلمان تسمیہ بھول گیا ہو۔]”
“أحكام القرآن” (2 / 750)
یہی حکم اس وقت ہے جب کسی شخص کو تسمیہ ترک کرنے کے حکم کا علم نہ ہو، مثلاً: ذبح کرنے والا یہ سمجھے کہ جس کی قربانی ہے اسی پر لازمی ہے کہ وہ تسمیہ بھی پڑھے تو وہ لا علمی کی بنا پر معذور ہے، اس صورت میں اس کا ذبیحہ حلال ہو گا۔
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جس وقت کوئی مسلمان جان بوجھ کر عمداً تسمیہ نہ پڑھے اور اسے علم بھی ہو تو اس کے ہاتھ کا ذبیحہ نہیں کھایا جائے گا، تاہم اگر لا علم ہو یا تسمیہ پڑھنا بھول جائے تو پھر اس کا ذبیحہ کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ذبح کرتے وقت تسمیہ پڑھنا لازمی ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، بسم اللہ واللہ اکبر کہہ جانور ذبح کرے، تاہم اگر کوئی مسلمان بھول کر یا تسمیہ پڑھنے کے شرعی حکم سے لا علمی کی بنا پر تسمیہ نہیں پڑھ سکا تو اس کا ذبیحہ حلال ہے۔۔۔” ختم شد
“فتاوى نور على الدرب” (24 / 164 – 165)
اس بنا پر:
اگر ذبح کرنے والے شخص نے عمداً تسمیہ ترک کیا تو اس کا یہ ذبیحہ حلال نہیں ہے چاہے اس کی جگہ آپ نے تسمیہ پڑھی ہو؛ کیونکہ تسمیہ پڑھنا اسی شخص کا معتبر ہو گا جو ذبح کر رہا ہے، تو اب یہاں ذبح کرنے والا خود تسمیہ پڑھے یہی معتبر ہو گا۔
لیکن اگر ذبح کرنے والے شخص سے بھول کر تسمیہ رہ گئی یا اسے علم نہیں تھا کہ تسمیہ پڑھنا واجب ہے تو ان دونوں صورتوں میں اس کا ذبیحہ حلال ہے، اور بھول چوک و لا علمی کی وجہ سے معذور شمار ہو گا۔
اس کی مثال یوں لیں کہ: اگر آپ کو یہ علم نہیں ہے کہ ذبح کرنے والے نے تسمیہ پڑھا تھا یا نہیں؟ تو ایسی صورت میں اصل تو یہی ہے کہ ذبح کرنے والے مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے، اور کے ذبح کے عمل کو صحیح اور درست تصور کیا جائے گا[تا آنکہ شواہد اس کے خلاف مل جائیں]۔
جیسے کہ “فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء” (22 / 364 – 367) میں ہے کہ:
“مسلمانوں کے بارے میں اصل یہ ہے کہ ہر معاملے میں ان کے متعلق اچھائی ہی گمان کی جائے گی، یہاں تک کہ اچھائی کے الٹ کوئی چیز واضح ہو جائے۔
اس بنا پر: ذبح شدہ جانوروں کے بارے میں یہی تصور کیا جائے گا کہ انہیں شریعت اسلامیہ کے مطابق ہی ذبح کیا گیا ہے، انہیں ذبح کرتے ہوئے تسمیہ، طریقہ ذبح شریعت کے مطابق تھا اس لیے انہیں کھایا جائے گا۔
جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ: (کچھ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں اور ہمیں نہیں معلوم کہ اس پر اللہ کا نام ذکر کیا گیا ہے یا نہیں؟! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم اس پر بسم اللہ پڑھو اور کھا لو۔ سیدہ عائشہ کہتی ہیں کہ: سائلین ابھی نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے۔) اس حدیث کو بخاری، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات
عبد اللہ بن سلیمان بن منیع، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن غدیان، عبد الرزاق عفیقی” ختم شد
دوم:
اگر ذبح کرنے والے شخص نے قربانی ذبح کرتے ہوئے تسمیہ تو پڑھی تھی لیکن اس نے وہ نیت نہیں کی جو آپ کی تھی ، مثلاً: کہ یہ جانور تمہاری اور تمہارے اہل خانہ کی طرف سے ہے، اور دوسری قربانی تمہارے والد کی طرف سے ہے تو اس صورت میں ذبیحہ بھی حلال ہے اور قربانی بھی ہو گئی ہے، ذبح کرنے والے کے لئے ان چیزوں کی نیت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، اس میں صرف آپ کی نیت کافی ہے، بلکہ تب بھی معاملہ صحیح ہے کہ آپ اپنی زبان سے یہ الفاظ نہ کہیں، صرف دل میں ہی رکھیں۔
زرکشی رحمہ اللہ اپنی “مختصر الخرقی” کی شرح میں لکھتے ہیں:
“علامہ خرقی کہتے ہیں: “ذبح کرنے والے پر یہ لازمی نہیں ہے کہ وہ جس کی طرف سے ذبح کر رہا ہے اس کا نام لے؛ کیونکہ اس کے لئے نیت ہی کافی ہوتی ہے”
شرح: صرف نیت پر اکتفا کرنے کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے؛ کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے، ہاں اگر کوئی اس شخص کا نام لے جس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے تو یہ اچھا عمل ہے۔۔۔
علامہ خرقی کا یہ کہنا کہ: “کیونکہ اس کے لئے نیت ہی کافی ہوتی ہے” یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نیت کا ہونا انتہائی ضروری ہے، اور اس بات میں کوئی اشکال باقی نہیں رہتا کہ قربانی نیت کے بغیر قربانی ہو ہی نہیں سکتی۔” ختم شد
“شرح الزركشي على مختصر الخرقي” (7 / 45 – 46)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ:
“کیا قربانی ذبح کرتے وقت یہ ذکر کرنا شرط ہے کہ کس کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے؟”
اس پر انہوں نے جواب دیا:
“اگر یہ ذکر کیا جائے کہ یہ قربانی فلاں کی طرف سے ہے تو یہ افضل عمل ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی قربانی ذبح کرتے وقت کہا کرتے تھے: اَللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، اَللَّهُمَّ هَذَا عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ [ترجمہ: یا اللہ! یہ تیری طرف سے ہے اور تیرے ہی لیے ہے۔ یا اللہ! یہ محمد اور محمد کی آل کی طرف سے قبول فرما۔] تاہم اگر کوئی نہ بھی ذکر کرے تو نیت ہی کافی ہے، البتہ ذکر کرنا افضل ہے۔” ختم شد
“مجموع فتاوى ابن عثیمین” (25 / 60)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (36518) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اس بنا پر:
اگر آپ نے ذبح کرنے والے کارندے کو ذبح سے پہلے قربانی کرنے کا مقصد بتلا دیا تھا تو ظاہر یہی ہے کہ اس نے آپ کے بتلائے ہوئے مقصد کے مطابق نیت کر لی ہو گی؛ کیونکہ آپ نے اسے اسی کام کے لئے اپنا نمائندہ بنایا تھا، اب یہاں پر اس کو زبان سے ادا کرنا شرط نہیں ہے۔
اور اگر آپ نے اسے بتایا ہی نہیں اور نہ ہی اسے معلوم تھا تو آپ کی نیت ہی کافی ہو جائے گی؛ کیونکہ آپ نے اسے صرف ذبح کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی، نا کہ قربانی متعین کرنے کی؛ کیونکہ قربانی متعین کرنے کا عمل تو آپ نے خود ہی کر لیا تھا، اور آپ نے خود ہی اس قربانی کے اخراجات برداشت کیے اور اس کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے۔
جیسے کہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر کوئی کسی کو ذبح کرنے کے لئے اپنا وکیل بنائے ، اور جب اس وکیل نے جانور ذبح کیا تو موکل نے نیت کر لی تو یہی کافی ہے، یہاں وکیل کو الگ سے نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اگر وکیل کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ ذبح ہونے والا جانور قربانی ہے تو تب بھی کوئی حرج پیدا نہیں ہوگا۔” ختم شد
“المجموع” (8 / 406)
زرکشی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جب قربانی کا جانور متعین ہو چکا ہو تو پھر نیت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ جانور پہلے ہی متعین ہو چکا ہے۔” ختم شد
“شرح الزركشي على مختصر الخرقي” (7 / 44)
خلاصہ:
اگر ذبح کرنے والے شخص نے عمداً تسمیہ نہیں پڑھا تو قربانی صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ ایسی صورت میں یہ ذبیحہ مردار شمار ہو گا اور مردار کو کھانا حلال نہیں ہے۔
اور اگر اس نے تسمیہ پڑھی تھی، یا لا علمی کی بنا پر اس نے تسمیہ نہیں پڑھی، یا آپ کو تسمیہ پڑھنے یا نا پڑھنے میں شک پیدا ہو گیا تو ان صورتوں میں قربانی صحیح ہو گی۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات