کیا زبان سے ادا ہونے والے بول پر بھی گرفت ہوتی ہے؟ مثلاً: کوئی لڑکی کہہ دیتی ہے کہ میں نے شادی نہیں کرنی، اس لڑکی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس نے شادی بالکل نہیں کرنی، بس بات سے بات نکلتے ہوئے ایسے الفاظ کہہ دیے، اور ایسی لڑکی کیا کرے جس نے اس قسم کی باتیں بہت زیادہ کی ہوئی ہوں؟
کیا زبان سے ادا ہونے والے الفاظ پر بھی گرفت ہوتی ہے؟
سوال: 302603
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
" زبان سے ادا ہونے والے الفاظ پر بھی گرفت ہوتی ہے " یہ کوئی آیت، یا حدیث نہیں ہے، بلکہ یہ کچھ صحابہ کرام اور تابعین سے منقول ایک قول ہے، اور یہ عرب میں ایسے ہی ہے جیسے دیگر کہاوتیں زمانہ قدیم سے چلی آ رہی ہیں۔
اس بارے میں ایک روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی مرفوعاً منقول ہے، لیکن وہ صحیح ثابت نہیں ہے۔
اس بارے میں ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت نہیں ہے" ختم شد
ماخوذ از: "الموضوعات" (3/83)
تاہم ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مصنف (13/130) میں ابراہیم نخعی کی سند سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ: "بلائیں زبان کے بول سے منسلک ہوتی ہیں" اس کی سند کو البانی ؒ نے سلسلہ ضعیفہ (7/395) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح قاضی ابو یوسف نے اپنی کتاب آثار: (ص: 196) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ : "بیشک بلائیں زبانی کلام سے بھی آتی ہیں۔"
اور سخاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس مفہوم کی تائید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دیہاتی شخص کو اس وقت کہی تھی جب آپ اس کی عیادت کے لئے تشریف لائے تھے۔۔۔ اسی طرح قاضی ابن بہلول نے شعر بھی کہا ہے [جس کا ترجمہ یہ ہے]کہ: ایسی بات مت کرو جو تمہیں اچھی نہ لگے؛ ممکن ہے کہ زبان سے کوئی بات نکل جائے اور ویسا ہی ہو جائے" ختم شد
"المقاصد الحسنة" (ص: 242)
یہاں علامہ سخاوی نے اپنی اس گفتگو میں اس واقعے کی جانب اشارہ کیا ہے جو امام بخاری: (5338) نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک آدمی کے پاس عیادت کے لئے تشریف لائے اور فرمایا: لاَ بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّه ترجمہ: کوئی حرج نہیں، اگر اللہ نے چاہا تو یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہوگا ۔ اس نے کہا: ہرگز نہیں یہ تو ایسا بخار ہے جو بوڑھے پر جوش مار رہا ہے تاکہ اسے قبرستان پہنچائے، نبی نے فرمایا: (پھر ایسا ہی ہو) "
ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بعض آثار میں ہے کہ زبان سے ادا ہونے والے الفاظ پر بھی گرفت ہوتی ہے ، تو یہ بات بھی دیگر کہاوتوں کی طرح ہی ہے۔" ختم شد
"الأمثال" (ص: 74)
دوم:
سوال میں مذکور کہاوت : " زبان سے ادا ہونے والے الفاظ پر بھی گرفت ہوتی ہے " کا مطلب یہ ہے کہ انسان بسا اوقات ایسی بات کر جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی اسی طرح گرفت ہو جاتی ہے جیسے اس کی زبان سے لفظ نکلا تھا، اور یہ بات صحیح ہے، اس کی تائید بہت سی شرعی نصوص سے ہوتی ہے، نیز زمانہ قدیم سے لیکر آج تک زمینی حقائق اور واقعات بھی اس کی تائید کرتے آئے ہیں، ابن قیم رحمہ اللہ نے ان کا تذکرہ "تحفة المودود بأحكام المولود" (ص: 122) میں کیا ہے۔
اسی طرح ابو الخیر ہاشمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" زبان سے ادا ہونے والے الفاظ پر بھی گرفت ہوتی ہے : مطلب یہ ہے کہ انسان بسا اوقات ایسے الفاظ زبان سے نکالتا ہے جس کی وجہ سے وہ گرفت میں آ جاتا ہے" ختم شد
"الأمثال" (ص91)
علامہ زمخشری کہتے ہیں:
"یہ کہاوت اس وقت کہی جاتی ہے جب انسان کوئی ایسی بات کہے جو اس کی آزمائش کا باعث بن جائے" ختم شد
"المستقصى في أمثال العرب" (1/ 305)
سوم:
سابقہ تفصیلات کے باوجود یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ کوئی عمومی قاعدہ نہیں ہے کہ یہاں تک کہہ دیا جائے کہ: انسان کی زبان سے جو کچھ بھی نکلتا ہے ان کی وجہ سے آزمائش میں پڑ جاتا ہے، اور نہ ہی جس نے یہ کہاوت کہی تھی اس کا یہ مقصود تھا؛ کیونکہ اس مفہوم کو غلط ثابت کرنے کے لئے حقائق بہترین دلیل ہیں۔
تو اس کہاوت کا اصل مقصد یہ ہے کہ: انسان کو برے الفاظ زبان پر لانے سے خبردار کیا جائے، اپنے بارے میں بری باتیں مت کریں، نہ ہی بد فالی لے، ہر وقت اپنی زبان سے منفی باتیں ہی کرتا رہے ؛ تا کہ اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کے زیر عتاب نہ آ جائے، انسان کو چاہیے اچھے الفاظ کا چناؤ کرے، اور اچھے مفہوم والے الفاظ ہی بولے، جن کا معنی اور مفہوم اچھا ہو، جن سے خوش فالی ،امید اور آس پیدا ہو۔
ابن ابی الدنیا ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ:
"میرا دل مجھ سے کچھ باتیں کرتا ہے لیکن میں انہیں زبان پر اس لیے نہیں لاتا کہ مجھے خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں میں ان باتوں کی وجہ سے آزمائش میں نہ پڑ جاؤں" ختم شد
"الصمت وآداب اللسان" (ص: 169)
اگر ماضی میں کسی سے اس قسم کی باتیں ہو گئی ہوں تو وہ اپنی ان کوتاہیوں پر اللہ سے معافی مانگے، اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھے؛ کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندے کے ساتھ وہی کرتا ہے جیسا بندہ اللہ تعالی کے بارے میں گمان کرتا ہے، چنانچہ بندے کو چاہیے کہ اللہ رب العالمین پر توکل کرے ؛ کیونکہ اللہ تعالی پر توکل اور بھروسا کرنے والے کے لئے اللہ کافی ہو جاتا ہے، پھر اللہ تعالی جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا ہے وہ نہیں ہوتا۔
اس بارے میں ایک اچھا سرچ پیپر ہے ، اس میں اس کہاوت کے متعلق اچھی گفتگو اور اس کے معانی بیان کیے گئے یہ سرچ پیپر ڈاکٹر ہیفا رشید کا ہے، یہ آپ درج ذیل لنک میں پڑھ سکتے ہیں:
https://jias.psau.edu.sa/ar/research/1482036911
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب