ایک اصطلاح: “بت پرستی ” سے کیا مراد ہے؟ اور کیا اس کا تذکرہ قرآن مجید یا احادیث نبویہ میں ہوا ہے؟
بت پرستی سے کیا مراد ہے؟
سوال: 307198
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ:
بت پرستی سے: بتوں کی پوجا اور انہی سے امیدیں وابستہ کرنا مراد ہوتا ہے، نیز بت پرستی کی اصطلاح بول کر وہ زمینی ادیان مراد لیے جاتے ہیں جو کہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں، مثلاً: مشرکینِ عرب، ہندوستان اور جاپان وغیرہ کے بت پرست لوگ، اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی ان میں شامل نہیں ہیں۔
قرآن و سنت دونوں میں بت پرستی سے ممانعت اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم موجود ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ
ترجمہ: پس تم بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو۔[الحج:30]
ایک اور مقام پر اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ
ترجمہ: اور گندگی سے دور رہیں۔[المدثر: 5] ابو سلمہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
“یہاں وَالرُّجْزَ سے مراد بت ہیں”
اس اثر کو امام بخاری نے صحیح بخاری میں کتاب التفسیر کے تحت باب: وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ کے تحت معلقاً روایت کیا ہے۔
سورت العنکبوت میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (16) إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
ترجمہ: اور ابراہیم نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو۔ اگر تم جانو تو یہی بات تمہارے لئے بہتر ہے۔ [16] تم اللہ کے سوا چند بتوں ہی کی تو عبادت کرتے ہو اور تم سراسر جھوٹ گھڑ تے ہو۔ بلاشبہ اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو تمہارے لیے کسی رزق کے مالک نہیں ہیں، سو تم اللہ کے ہاں ہی رزق تلاش کرو اور اس کی عبادت کرو اور اس کا شکر کرو، اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ [العنكبوت:16، 17]
آگے چل کر مزید فرمایا:
وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ
ترجمہ: نیز ابراہیم نے ان سے کہا : تم نے دنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو آپس میں محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے مگر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کر دو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے۔ اور تمہارا ٹھکانا آگ ہوگا اور تمہارا کوئی مدد گار بھی نہ ہوگا۔ [العنكبوت:25]
صحیح بخاری: (7) میں ابو سفیان کے ساتھ ہرقل کے واقعے میں ہے کہ ہرقل نے کہا: “میں نے تجھ سے پوچھا کہ وہ نبی تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے، تو تم نے ذکر کیا کہ وہ تمہیں اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک بنانے سے روکتا ہے، وہ تمہیں بت پرستی سے بھی منع کرتا ہے، نیز نماز پڑھنے، سچ بولنے اور عفت کے ساتھ رہنے کا حکم دیتا ہے، تو اگر تم جو کچھ کہہ رہے ہو یہ سچ ہے تو یہ نبی عنقریب میرے دونوں قدموں کی جگہ کا بھی مالک بن جائے گا”
اسی طرح ابو داود: (4252) اور ترمذی: (2219) میں ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے زمین کے مشرق و مغرب کو دیکھا، اور میری امت کی بادشاہی وہیں تک پہنچے گی جہاں تک میرے لیے زمین کو سمیٹا گیا، مجھے سرخ اور سفید دو خزانے بھی دئیے گئے ۔۔۔ اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے خاندان مشرکوں سے نہ جا ملیں، اور میرے امت کے خاندان بت پرستی میں ملوث نہ ہو جائیں) اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں عنوان قائم کیا ہے کہ: “باب ہے زمانے کی تبدیلی کے متعلق ، یہاں تک کہ بتوں کی پرستش کی جانے لگے گی” اس کے بعد انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک دوس قبیلے کی عورتوں کے سرین ذو الخلصہ بت کے آس پاس حرکت نہ کرنے لگیں) ذو الخلصہ دوس قبیلے کا طاغوت تھا دور جاہلیت میں اس کی پوجا کی جاتی تھی۔ اس حدیث کو بخاری: (7116) نے روایت کیا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ: بت پرستی سے مراد بتوں کی پوجا ہے، جو کہ پہلے جزیرہ عرب میں عام تھی، اور اب یہ چند ممالک مثلاً: ہندوستان، جاپان اور بعض افریقی ممالک میں ہے۔
اور حدیث میں اس چیز کا ذکر ہے کہ بت پرستی قیامت آنے سے قبل آخری زمانے میں جزیرہ عرب کے اندر دوبارہ آ ئے گی۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب