0 / 0
6,48806/05/2005

سودى بنكوں ميں رقم ركھنا

سوال: 30798

ميں ايك عورت ہوں اور ميرے پاس وراثت كا بہت مال ہے، ميں گھر كى سارى ضروريا ت كھانا پينا، اور كالج كے اخراجات اور اپنى اولاد كى شاديوں كے اخراجات پورى كرتى ہوں، يہ علم ميں ركھيں كہ ميرا خاوند پوليس آفيسر ہے، ليكن اس كى تنخواہ ہمارى گزر بسر كے ليے كافى نہيں كہ ہم ہر قسم كى مادى مشكلات سے راحت حاصل كرتے ہوئے اچھى اور راحت والى گزر بسر كرسكيں، ميں نے اپنى سارى وراثت كا مال بنك ميں ركھا ہوا ہے اور فائدے سے اخراجات پورے كرتے ہيں، تو كيا ميں جو كچھ خرچ كرتى ہوں وہ زكاۃ شمار ہو گا يا كہ مجھ پر زكاۃ نكالنى واجب ہے؟
اور اس كى قيمت كيا ہو گى آيا وہ فائدہ پر ہو گى يا اصل مال پر ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

1 – بنكوں ميں مال ركھنا اور سود لينا – جسے " فائدہ " كے نام سے موسوم كيا جاتا ہے، حرام اور كبيرہ گناہوں ميں سے ہے.

مستقل فتوى كيمٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

اول:

بنكوں ميں ركھى گئى رقم پر بنك جو رقم ركھنے والوں مبلغ ادا كرتا ہے وہ سود شمار ہوتا ہے، اس كے ليے اس نفع سے فائدہ حاصل كرنا حلال نہيں، اسے سودى بنكوں ميں رقم ركھنے سے توبہ كرنى چاہيے، اور اسے چاہيے كہ وہ بنك ميں ركھى گئى اصل رقم اور اس كا نفع بنك سے نكلوا كر اصل مال اپنے پاس محفوظ كرلے اور اس سے زيادہ رقم نيكى اور بھلائى كے كاموں پر فقراء و مساكين اور اصلاح وغيرہ پر خرچ كردے.

دوم:

اسے ايسى جگہ تلاش كرنى چاہيے جو سودى لين دين نہ كرے چاہے وہ دوكان ہى ہو، اور اس دوكان ميں وہ تجارت ميں شراكت و مضاربت اپنى رقم لگائے، كہ اسے نفع كا ايك معلوم اور عام حصہ ملے مثلا تيسرا حصہ، يا پھر اس ميں بغير كسى فائدہ بطور امانت رقم ركھے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 404 ).

اور مضاربت كا معنى يہ ہے كہ: دو شخص شراكت كريں ايك كا پيسہ ہو اور دوسرا كام كرے، اور اس كا نفع ان دونوں كے مابين حسب اتفاق تقسيم ہو گا.

شيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:

اس ميں كوئى شك نہيں كہ سودى لين دين كرنے والے بنكوں ميں رقم ركھنى جائز نہيں، كيونكہ ايسا كرنے ميں گناہ اور ظلم وزيادتى ميں ان كى معاونت ہوتى ہے، اور اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كيا كرو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ:

" نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور سود كھلانے اور اسے لكھنے اور اس كے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائى اور فرمايا: وہ سب برابر ہيں" اسے امام مسلم نے اپنى صحيح ميں روايت كيا ہے.

اور رہا مسئلہ بنكوں ميں ماہانہ يا سالانہ فائدہ پر رقم ركھنا تو يہ سود ہے جس كى حرمت پر علماء كرام كا اجماع ہے، اور جب بنك سودى لين دين كرتا ہو تو بغير فائدہ كے رقم جمع كروانے ميں بھى بہتر يہى ہے كہ اس بنك ميں ضرورت كے بغير رقم جمع نہ كروائى جائے، كيونكہ اس بنك ميں رقم جمع كروانا اگرچہ وہ فائدہ كے بغير ہى كيوں نہ ہو اس ميں اس كے سودى لين دين اور كاموں ميں بنك كے ساتھ معاونت ہے اس ليے خدشہ ہے كہ صاحب مال بھى ظلم زيادتى اور گناہ كے كاموں ميں معاونت كرنے والوں شامل نہ ہو جائے، اگرچہ اس كا ارادہ ايسا نہيں.

لہذا جسے اللہ تعالى نے حرام قرار ديا ہے اس سے احتراز كرنا اور بچنا ضرورى اور واجب ہے، اور اموال كى حفاظت اور اسے صرف كرنے كے ليے صحيح اور سليم طريقے تلاش كرنے چاہييں.

اللہ تعالى سب مسلمانوں كو ايسے كام كرنے كى توفيق عطا فرمائے جن ميں ان كى سعادت و خوشبختى اور ان كى عزت او نجات اور فلاح و كاميابى ہو، اور ان كے ليے جلد از جلد ايسے كام ميں آسانى پيد فرمائے جس سے اسلامى بنك قائم ہو سكيں جو سود سے پاك صاف ہوں، بلاشبہ اللہ تعالى اس پر كارساز اور اس كى قدرت ركھتا ہے.

اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے.

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 4 / 30 – 31 ).

2 – اور ماں جو كچھ اپنى اولاد پر صرف كرتى وہ زكاۃ ميں شمار نہيں ہوتا، اس ليے كہ والد كا اپنى اولاد پر خرچ كرنے سے عاجز ہونے اور ماں ميں خرچ كى استطاعت ہونے كى حالت ميں خرچ كرنے كا وجوب والد كى جانب سے ماں كى طرف منتقل ہو جاتا ہے.

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ ( 11 / 373 ).

اور جب ماں كے ذمہ اپنى اولاد پر خرچ كرنا واجب ہو جائے تو پھر ماں كے خرچ كرنے كى بنا پر وہ غنى اور مالدار ہو جاتے ہيں، لہذا انہيں زكاۃ دينا جائز نہيں ہو گى.

3 – سودى بنك سے جلد از جلد مال نكلوانا واجب اور ضرورى ہے، اور مال پر حاصل شدہ فوائد آپ كے ليے حلال نہيں بلكہ اسے بھلائى اور خير كے كسى بھى كام ميں صرف كركے اس سے چھٹكارا حاصل كرنا ضرورى ہے، اور جو كچھ آپ سودى فوائد حاصل كرچكى ہيں اگر تو يہ شرعى حكم سے جہالت كى بنا پر تھا تو معاف ہيں.

شيخ عبداللہ بن جبرين حفظہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جو كچھ بنك نے آپ كو فائدہ كے نام پر سود ديا اور آپ اسے كھا چكے ہيں اس پر آپ كو توبہ كرنا ضرورى ہے، آپ كو اسے نكالنے اور چٹى بھرنے كى ضرورت نہيں، بلكہ يہ اس ميں شامل ہے جو اللہ تعالى نے معاف كرديا ہے:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور جس كے پاس اس كے رب كى جانب سے نصيحت آ گئى اور وہ رك گيا تو اس كے وہ كچھ ہے جو گزر گيا، اور اس كا معاملہ اللہ كے سپرد

لہذا اگر آپ نے اس كے بعد سود ليا ہے تو پھر اسے اپنے قريبى يا كسى بعيد شخص پر جو صدقہ كا مستحق ہو صدقہ كرديں تا كہ سود خورى كے گناہ سے بچ سكيں.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 406 – 407 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android