یہ حدیث جس میں ہے کہ: ایک شخص نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے سوال پوچھا: کیا آپ نے اپنے رب کو جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے پہچانا یا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے رب کے ذریعے پہچانا۔۔۔ الخ کیا یہ صحیح ہے؟
کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب یہ سوال ثابت ہے؟ کہ کیا آپ نے اپنے رب کو جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے سے پہنچانا؟
سوال: 310680
جواب کا خلاصہ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ سوال کہ:” کیا آپ نے اپنے رب کو جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے واسطے سے پہنچانا ۔۔۔الخ” یہ بات شیعوں کی کتابوں میں ایک لمبے واقعہ کے ضمن میں موجود ہے، اس کے جھوٹا ہونے کے دلائل اسی واقعہ میں بالکل واضح ہیں، شیعہ اس واقعہ کے ذریعے سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے علم کی تنقیص کرنا چاہتے ہیں، مزید یہ بھی کہ شیعہ یہ واقعہ متہم بالکذب اور مجہول راویوں کی سند سے بیان کرتے ہیں۔
Table Of Contents
اول: سیدنا علی کی طرف منسوب قول کی صحت پر تبصرہ
علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس قول کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کو صراحت کے ساتھ جھوٹ قرار دیا ہے، انہوں نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ:
"محمد بن اشرس سلمی کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن سعید ھروی نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسماعیل بن یحیی بن عبد اللہ تیمی اور علی بن ابراہیم ہاشمی دونوں نے خبر دی، وہ دونوں یحیی بن عقیل خزاعی سے بیان کرتے ہیں اور وہ اپنے باپ سے کہ علی بن ابی طالب سے ایک شخص نے پوچھا: کیا آپ نے اللہ کی معرفت محمد کے ذریعے حاصل کی یا محمد کی معرفت اللہ کے ذریعے حاصل کی؟
تو سیدنا علی نے کہا: اگر میں اللہ تعالی کو جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے پہچانتا تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالی سے زیادہ با اعتماد ہوتے، اور اگر میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالی کے ذریعے پہچانتا تو مجھے اللہ کے رسول کی ضرورت نہ رہتی، البتہ اللہ تعالی نے مجھے اپنی بلا کیف معرفت خود ہی اپنی مشیئت سے عطا کی۔ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول اس لیے بنایا کہ قرآن اور ایمان کی تبلیغ کر دیں، اسلام پر لوگوں کو پختہ دلائل کے ساتھ کار بند کر دیں، تو اللہ تعالی کی طرف سے وہ جو کچھ بھی لائے میں نے اس کی تصدیق کی ؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالی کے احکامات سے متصادم کوئی بھی چیز نہیں لے کر آئے، نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے سے پہلے آنے والے رسولوں کی مخالفت کی ، بلکہ آپ تو ہدایت، کامیابی کا وعدہ اور پہلی شریعتوں کی تصدیق لے کر آئے۔"
ابن الجوزی ؒ کہتے ہیں:
یہ حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر بہتان ہے؛ کیونکہ آپ کا مقام و مرتبہ ایسی بات کہنے سے کہیں بلند ہے ، اس بہتان کا الزام محمد بن سعید نامی راوی پر لگتا ہے، مزید بر آں یہ بھی ہے کہ محمد بن سعید کا استاد اسماعیل بھی ہے، اور اسماعیل کے بارے میں ابن عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ شخص ثقہ راویوں سے باطل قسم کی راویتیں بیان کرتا ہے، جبکہ ہاشمی کا تو علم ہی نہیں ہے کہ وہ کون ہے!" ختم شد از: "العلل المتناهية في الأحاديث الواهية" (2 / 942)
علامہ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی اسے تباہ و برباد فرمائے جس نے یہ روایت گھڑی ہے، اس کا راوی محمد بن اشرس سلمی کذاب ہے، وہ محمد بن سعید سے بیان کرتا ہے اور وہ اسماعیل بن یحیی سے جو کہ متہم بالکذب راوی ہے۔" ختم شد از "تلخيص كتاب العلل المتناهية" (ص 370)
اسی طرح علامہ شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی منسوب بات کہ ان سے کہا گیا: کیا آپ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے اللہ کو پہچانا یا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کے ذریعے پہچانا؟
تو انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، ہاں اللہ تعالی نے مجھے خود ہی اپنا تعارف کروایا، بلا کیف اور جیسے چاہا کروایا، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول بنا کر مبعوث فرمایا تا کہ قرآن اور ایمان کی تبلیغ کریں۔۔۔ الخ اس واقعہ کو جوزقانیؒ نے "واھیات" میں ذکر کیا ہے۔
ابن الجوزیؒ کہتے ہیں کہ: یہ حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہے۔" ختم شد از "الفوائد المجموعة" (ص 455)
شیعہ کی کتابوں میں موجود یہ واقعہ بہت لمبا ہے اس کے جھوٹ ہونے کے دلائل اسی واقعہ میں بالکل واضح ہیں، شیعہ اس واقعہ کے ذریعے سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے علم کی تنقیص کرنا چاہتے ہیں، مزید یہ بھی کہ یہ واقعہ متہم بالکذب اور مجہول راویوں کی سند سے بیان کرتے ہیں، آپ ان اسانید کو شیعہ مصنف ابن بابویہ قمی کی کتاب "التوحید" صفحہ: 210 میں دیکھ سکتے ہیں۔
دوم: جملے کے مفہوم پر تبصرہ
اسی سے ملتی جلتی ایک عبارت اہل علم کی کتابوں میں موجود ہے اور ان میں اس عبارت کے قائل کا نہیں بتلایا گیا صرف اتنا ہے کہ سلف صالحین میں سے کسی نے کہا۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عبد الوہاب بن ابو الفرج مقدسی کہتے ہیں کہ: یہ بات سلف صالحین میں سے متعدد لوگوں سے منقول ہے کہ کسی سے پوچھا گیا: آپ کو معرفت الہی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے حاصل ہوئی یا اللہ کی معرفت اللہ نے خود کروائی؟ تو انہوں نے کہا: مجھے معرفتِ الہی خود اللہ تعالی نے عطا کی جبکہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پہچان اللہ کے ذریعے حاصل کی۔ اور اگر معرفت الہی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے حاصل کرتا تو احسان اللہ تعالی کی بجائے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ہوتا !" ختم شد از : "درء تعارض العقل والنقل" (9 / 25)
یہ بات کہہ کر ان کا مقصود یہ ہوتا تھا کہ مومن اللہ اور اس کے رسول کی معرفت خالص اللہ تعالی کی توفیق اور ہدایت سے ہی حاصل کرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی تعلیمات پر اپنی ذاتی سوچ بچار سے یہ قطعا ممکن نہیں ہے، یہی بات اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے:
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ * فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَنِعْمَةً وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ترجمہ: جان لو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول ہیں، وہ اگر بہت سے معاملات میں تمہاری بات ماننے لگے تو تم مشقت میں پڑ جاؤ، لیکن اللہ تعالی نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی اور اسے تمہارے دلوں میں پرکشش بھی بنا دیا، نیز تمہارے اندر کفر ، گناہوں اور نافرمانی کی نفرت ڈال دی، یہی لوگ ہیں جو راہِ راست پر ہیں۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے خالص فضل اور نعمت ہے، اور اللہ تعالی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔[الحجرات: 7-8]
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
ترجمہ: اور اگر ہم چاہتے تو ہر جان کو اس کی رہنمائی دے دیتے، لیکن میری طرف سے فیصلہ اٹل ہو گیا کہ میں جہنم کو سب جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔[السجدۃ: 13]
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہدایت کے اسباب اور وسائل کا انکار بھی نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہدایت کے اسباب بنائے ہیں اور ان میں سے سب سے بڑا سبب رسولوں کی دعوت اور تعلیم ہے۔
جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل سنت میں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ معرفت الہی اور ایمان دونوں ہی انسان کو اللہ تعالی کے فضل، رحمت، رہنمائی اور خاص اللہ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس میں ان قدریہ کا رد بھی موجود ہے۔
یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ معرفت فکر و نظر اور عقل سے حاصل ہو ہی نہیں سکتی، اسی طرح یہ بھی اس کا مطلب نہیں ہے کہ رسولوں ، علمائے کرام اور اہل ایمان کے سکھانے، بتلانے، اور دعوت دینے سے معرفت حاصل نہیں ہوتی۔
بلکہ یہ بات تو سب کے ہاں مسلمہ ہے کہ : دل میں علم لوگوں کی بتلائی اور وضاحت کی ہوئی باتوں سے بھی پیدا ہو جاتا ہے، ان کی باتیں بسا اوقات عقلی دلیل کے لیے رہنمائی کرتی ہیں یا پھر ان کی باتوں میں زمینی حقائق بیان ہوتے ہیں۔
اور بسا اوقات یہ علم دل میں غور و فکر اور استدلال و استنباط سے بھی حاصل ہو جاتا ہے، یا پھر خود سے مشاہدہ کرنے سے بھی علم حاصل ہوتا ہے۔
اور کبھی ذاتی کاوش کے بغیر اللہ تعالی زبردستی انسان کو علم عطا کر دیتا ہے۔۔۔ یہ کیفیت اس وقت ہوتی ہے جب اللہ تعالی مومنوں کے دلوں میں ایمان ڈالتا ہے، چاہے یہ ایمان بندے کی طرف سے اپنائے گئے کسی سبب کی بنا پر ہو مثلاً: وہ خود غور و فکر کرے، یا کوئی اور غور و خوض کرے، یا اس کے بغیر ہی دل میں ایمان پیدا ہو جائے۔ مذکورہ صورت اور اللہ تعالی کے قضا و قدر کی وجہ سے حاصل ہونے والے اسباب؛ سب کے سب اللہ تعالی کی اپنے بندے پر نعمت ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ہی سبب اور مسبب عطا کیے ہیں۔
لہذا اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ معرفت الہی اور ایمان ذاتی عقل و فکر اور استدلال سے حاصل ہو سکتا ہے جیسے کہ قدریہ کہتے ہیں تو وہ گمراہ ہے۔
مذکورہ سلف صالحین نے اسی بات کی تردید کی ہے۔" ختم شد از: "درء تعارض العقل والنقل" (9 / 28 – 29)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب