میں دیندار نوجوان ہوں، اور الحمدللہ استغفار کرنا میری عادت ہے، اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا یعنی: میں نے انہیں کہا کہ: تم اپنے رب سے استغفار کرو یقیناً وہ تمہیں بخشنے والا ہے، وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا، تمہاری دولت اور نرینہ اولاد کے ذریعے مدد فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات اور نہریں جاری کر دے گا۔
لیکن پھر بھی ابھی تک مجھے نہ تو نرینہ اولاد ملی ہے اور نہ ہی عام طور پر بارش ہوتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
ایک شخص تسلسل کے ساتھ استغفار بھی کر رہا ہے لیکن پھر بھی نہ اولاد ملی ہے نہ بارش ہوتی ہے۔
سوال: 319879
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شرعی نصوص سے ثابت ہے کہ استغفار کی بدولت دنیا کی زندگی آسودہ ہو جاتی ہے ، نیز دولت، نرینہ اولاد اور بارشیں آتی ہیں۔
جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ * وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ
ترجمہ: تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو، یقیناً میں تمہیں اللہ تعالی سے ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں۔ ٭ نیز تم اپنے رب سے استغفار کرو اور پھر اسی سے توبہ بھی کرو، اللہ تمہیں ایک وقت تک کے لیے اچھا دنیاوی فائدہ دے گا، اور وہ ہر اچھے کام کرنے والے کو اپنا فضل عطا فرماتا ہے۔ اور اگر تم رو گردانی کرو تو مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا خدشہ ہے۔[ھود: 2 – 3]
عظیم مفسر الشیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ استغفار کرنے والے اور گناہوں سے توبہ کرنے والے کو اللہ تعالی ایک وقت تک کے لیے خوب دنیاوی فائدہ دیتا ہے؛ کیونکہ آیت میں یہی بتلایا گیا ہے کہ استغفار اور توبہ کرنے والے کو یہ چیزیں عطا ہوں گی، چنانچہ استغفار اور توبہ شرط ہیں اور ان کا بدلہ دنیاوی فائدہ ہے۔
یہاں دنیاوی فائدے سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد وافر رزق، آسودہ زندگی، دنیا میں ہر قسم کی آزمائش سے سلامتی ہے۔ اور ایک وقت تک کا مطلب یہ ہے کہ : موت تک۔ اس کی دلیل اسی سورت کی دیگر آیات ہیں جو اللہ تعالی نے سیدنا ھود علیہ السلام کی دعوت ذکر کرتے ہوئے بیان فرمائی ہیں: وَيَاقَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ ترجمہ: اے میری قوم! تم اپنے رب سے استغفار کرو اور پھر اسی سے گناہوں پر توبہ مانگو وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائے گا، اور تمہاری قوت میں مزید اضافہ کرے گا۔ [ھود: 52]
اسی طرح اللہ تعالی نے سیدنا نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا * يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا * وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا ترجمہ: میں نے انہیں کہا کہ: تم اپنے رب سے استغفار کرو یقیناً وہ تمہیں بخشنے والا ہے، وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا، تمہاری دولت اور نرینہ اولاد کے ذریعے مدد فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات اور نہریں جاری کر دے گا۔ [نوح: 10 – 12]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً
ترجمہ: ایمان کی حالت میں عمل صالح کرنے والا مرد ہو یا عورت ہم اسے لازمی طور پر آسودہ زندگی عطا کریں گے۔ [النحل: 97]
ایک اور مقام پر فرمایا: وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ
ترجمہ: اور اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقوی الہی اپناتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے ۔ [الأعراف: 96]
ایسے ہی فرمانِ باری تعالی ہے: وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ
ترجمہ: اور اگر وہ تورات و انجیل سمیت جو کچھ اللہ تعالی کی جانب سے ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اسے نافذ کرتے تو وہ لازما اپنے اوپر نیچے سے کھاتے۔[المائده: 66]
نیز فرمایا: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا * وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
ترجمہ: اور جو بھی تقوی الہی اپنائے تو اللہ تعالی اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، اور اسے وہاں سے عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔[الطلاق: 2 -3] اس کے علاوہ اور بھی آیات اس حوالے سے موجود ہیں۔" ختم شد
"أضواء البيان" (3 / 11 – 12)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (39775 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
اگر استغفار کرنے والے کو فوری اولاد اور بارش نصیب نہ ہو تو یہ صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالی کے بارے میں بد گمانی کرے، بلکہ اپنی کوتاہی تلاش کرے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ حاضر دل و دماغ کے ساتھ استغفار نہ کیا جا رہا ہو، استغفار میں خشوع و خضوع شامل نہ ہو، بلکہ استغفار صرف زبان کی حد تک ہو، اگر حقیقت ایسے ہی ہے تو پھر ایسا استغفار قابل قبول نہیں ہوتا۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ * وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ترجمہ: تم اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چھپ کر پکارو؛ یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ٭ زمین پر اصلاح کے بعد فساد مت بپا کرو، اور اللہ تعالی کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو؛ یقیناً اللہ تعالی کی رحمت حسن کارکردگی کے حامل لوگوں کے قریب ہوتی ہے۔[الاعراف: 55 – 56]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم اللہ تعالی سے دعا کرو تو قبولیتِ دعا کے پورے یقین کے ساتھ کرو۔ یہ بات ذہن نشین کر لو کہ: اللہ تعالی کسی غافل اور لا پرواہ دل کی دعا قبول نہیں فرماتا۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (3479) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحيح الترغيب والترهيب" (2 / 286) میں حسن قرار دیا ہے۔
یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ استغفار کرنے والے کا کوئی ایسا گناہ ہے جس کی طرف اس کی توجہ نہیں ہے اور اللہ تعالی سے اس گناہ کی توبہ بھی نہیں کی ہوئی۔
مسلمان کے عقیدے میں یہ بات شامل ہے کہ اللہ تعالی کسی پر بھی کسی قسم کا ظلم نہیں فرماتا، اللہ تعالی کا عدل کامل ترین ہے کیونکہ وہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اسی طرح اللہ تعالی کا ہر عمل حکمت سے بھر پور ہوتا ہے، اس لیے استغفار کرنے والے شخص کو اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے، اور اللہ تعالی کی حکمت پر کوئی اعتراض نہ کرے، اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے کہ:
لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ
ترجمہ: اللہ جو فعل کرے اس کی وجہ نہیں پوچھی جاتی، جبکہ مخلوقات سے پوچھا جائے گا۔ [الانبیاء: 23]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ سبحانہ و تعالی ہر چیز کا خالق اور بادشاہ ہے، اللہ تعالی کی اپنی مخلوقات کے بارے میں خاص حکمتیں اور وافر نعمتیں ہیں، اللہ تعالی نے عام و خاص سب پر اپنی رحمت بھی کی ہوئی ہے، اللہ تعالی کے افعال کی وجوہات اور اسباب نہیں پوچھے جاتے، لیکن مخلوقات سے ان کے کردار اور اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، یہ سوال محض اس لیے نہیں کہ وہ قدرت اور قہر والی ذات ہے، بلکہ اس لیے کہ اللہ تعالی کا علم، قدرت ، رحمت اور حکمت سب کچھ ہی بے کنار ہیں۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (8 / 79)
کیونکہ ایسا عین ممکن ہے کہ نرینہ اولاد اور بارش میں تاخیر ہی اس کے لیے مفید ہو؛ بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس شخص کو دنیاوی سہولیات نہ ملنا اس کے لیے بہتری کا باعث ہو۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات اللہ تعالی کے فیصلوں پر راضی رہنے سے متصادم ہے کہ انسان اپنی خواہشات پوری کروانے کے لیے اصرار کرتا رہے، اللہ تعالی کے فیصلے پر اپنے فیصلے کو اچھا سمجھے، اور جس چیز کے بارے میں اسے علم ہی نہیں ہے اسے اللہ کے فیصلے سے متصادم ہونے کے باوجود اپنے لیے اچھا سمجھے؛ کیا یہ طریقہ کار اللہ تعالی کو پسند ہو گا یا نہیں؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی پر یہ اعتراض کرے کہ فلاں کو اپنا ولی کیوں بنایا! یا فلاں کو امیر کیوں بنایا؟ یا فلاں کی ضرورت کیوں پوری کی؟ تو جس طرح یہ اللہ تعالی کے فیصلوں پر رضا مندی کے منافی ہے اسی طرح دعا کے بعینہٖ پورا نہ ہونے پر عدم رضا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی نہیں ہے۔" ختم شد
" مدارج السالكين " (3 / 2033)
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عقل مند شخص کو اپنے مقاصد پورے ہونے پر راضی ہو جانا چاہیے، لہذا اگر اس نے کوئی دعا کی اور دعا میں مخصوص چیز مانگی تو یہاں اصل مقصد چیز نہیں بلکہ اللہ تعالی سے دعا ہے۔ لہذا اگر مطلوبہ چیز مل جائے تو اللہ کا شکر ادا کرے، اور اگر مطلوبہ چیز نہ ملے تو مطلوبہ چیز کی دعا میں مزید الحاح نہ کرے؛ کیونکہ دنیا وہ جگہ ہی نہیں ہے جہاں پر ساری خواہشات پوری ہوں گی، ایسے شخص کو دل میں یہ کہنا چاہیے کہ: وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ترجمہ: اور عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔ [البقرۃ: 216] " ختم شد
"صيد الخاطر" (ص 625 – 626)
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ مسلمان کی ہر دعا خیر کا باعث ہی ہوتی ہے؛ کیونکہ اگر دنیا میں مطلوبہ چیز نہ ملے تو اس دعا کے بدلے میں کوئی ایسی نقصان دہ چیز دور کر دی جاتی ہے جو اس کے علم میں نہیں ہے، یا پھر اس کی دعا کو قیامت کے دن تک کے لیے ذخیرہ کر لیا جاتا ہے۔ تو اس لیے مسلمان کو عدم قبولیت پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس دھرتی پر کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی کو یاد کرے اور کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے تو اللہ تعالی اسے مطلوبہ چیز عطا فرما دیتا ہے، یا پھر اسے دعا کے برابر کسی نقصان سے محفوظ فرما دیتا ہے۔) اس پر سامعین میں سے ایک شخص نے کہا: تب تو ہم دعائیں بہت زیادہ کریں گے! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تو اللہ تعالی تمہیں اور زیادہ عطا کرے گا۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (3573)نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ: "یہ حدیث اس سند کے ساتھ حسن، صحیح غریب ہے۔"
اسی طرح سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کوئی بھی مسلمان دعا کرے اور دعا میں گناہ اور قطع رحمی کی بات نہ ہو تو اللہ تعالی اسے تین میں ایک چیز عطا فرماتا ہے: یا تو اس کی مطلوبہ چیز فوری عطا کر دی جاتی ہے، یا پھر اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا جاتا ہے، یا پھر اس کی دعا کے مطابق اس سے برائی ٹال دی جاتی ہے۔)سامعین نے کہا: تب تو ہم کثرت سے دعائیں کریں گے! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اور زیادہ عطا کرے گا۔) اس حدیث کو امام احمد نے مسند : (17 / 213) میں روایت کیا ہے اور البانیؒ نے "صحيح الترغيب والترهيب" (2 / 278) میں اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (5113 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات