0 / 0

کچھ لوگ ہندوؤں کے انداز میں شادی کرنا چاہتے ہیں۔

سوال: 32487

میری اللہ سے دعا ہے کہ ایسے اہل ایمان کو ہدایت دے جو کافروں کے پیچھے لگ چکے ہیں، میری بہن کی شادی قریب ہے، اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ شادی سے پہلے ایک تقریب منعقد کرے جسے علاقائی زبان میں “ہولووڈ” کہتے ہیں، اس تقریب میں دلہن کرسی پر بیٹھ جاتی ہے اور آس پاس پھل اور کھانے رکھ دئیے جاتے ہیں پھر مرد اور عورتیں آ کر اسے کھلاتے ہیں اور پھر سر پر پہننے کا ایک زیور دلہن کو پہناتے ہیں، یہ ہندوانہ رسم ہے، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اسے اپنا لیا ہے۔

میرے والدین اس تقریب کے انعقاد پر موافقت کر چکے ہیں اور میری بہن بھی راضی ہے۔

میں آپ سے التماس کرتی ہوں کہ آپ اللہ سے مسلمانوں کی ہدایت کی دعا کریں کہ وہ گناہوں کی عادت نہ ڈالیں، اور اللہ انہیں جنت کا داخلہ دے دے۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

سوال سے بالکل واضح ہے کہ اس اقدام میں دو شرعی قباحتیں پائی جاتی ہیں:

پہلی قباحت یہ ہے کہ: ہندوؤں اور کافروں سے اس میں مشابہت ہے، تو کسی بھی مسلمان کے لئے کافروں کی ایسے کام میں مشابہت اختیار کرنا جائز نہیں ہے جو کافروں کی امتیازی نشانی ہو، مثلاً: مخصوص نوعیت کے لباس پہننا، ان کے تہواروں اور تقریبات وغیرہ میں شرکت کرنا۔

کافروں کی مشابہت سے ممانعت میں یہ حکمت بھی شامل ہے کہ کافروں کی مشابہت اختیار کرنا والا شخص اندرونی طور پر کافرو ں سے متاثر نہ ہو جائے؛ کیونکہ جو شخص کسی قوم سے ظاہری مشابہت رکھتا ہے اندرونی طور پر وہ ان سے متاثر ہو ہی جاتا ہے، حتی کہ انسان اپنے آپ کو انہی میں سے شمار کرنے لگتا ہے، نیز یہ بھی حکمت ہے کہ مسلمان اور کافر میں فرق واضح رہے، تا کہ مسلمان کی اہانت نہ ہو اور کافر کی تعظیم نہ ہو۔

زنار [غیر مسلموں کے لیے مختص ایک خاص دھاگا]پہننے والوں کے بارے میں شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں کہ:
“نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے) اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں کہا: “اس حدیث سے کم از کم حرمت کا حکم کشید ضرور ہوتا ہے” اگرچہ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کافروں کی مشابہت اختیار کرنے والا بھی کافر ہے۔

اس لیے [حکم کشید کرتے ہوئے]محض کراہت پر اکتفا کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ: اس میں علت عیسائیوں کے زنار سے مشابہت ہے، تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسے حرام قرار دیں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے) تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ کافر ہو گیا ہے، لیکن وہ اپنے لباس اور شکل و صورت کے اعتبار سے ان کافروں جیسا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں جیسے لباس پہنے ہوئے شخص میں اور عیسائی میں فرق کرنا آپ کے لیے مشکل ہو جائے گا، گویا کہ وہ ظاہری طور پر عیسائی لگے لگا۔

اہل علم مزید کہتے ہیں: یہاں ایک امر یہ بھی ہے کہ ظاہری مشابہت سے قلبی طور پر میلان اور مشابہت کے امکان بڑھ جاتے ہیں اور حقیقت میں ایسا ہی ہوتا ہے؛ کیونکہ جب انسان ظاہری طور پر مشابہت اختیار کرتا ہے تو اپنے آپ کو انہی جیسا سمجھنے لگ جاتا ہے، نیز ان کو برا بھی نہیں سمجھتا، تو یہی چیز اس کے قلبی میلان کا باعث بنتی ہے، اور آخر کار انسان اپنے دین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔۔۔ اس لیے زنار کا حکم یہ ہے کہ اسے پہننا حرام ہے۔” ختم شد
الشرح الممتع ” ( 2 / 192-193 )

دوم:

مذکورہ تقریب میں دوسری قباحت یہ ہے کہ مرد حضرات دلہن کے پاس جاتے ہیں، حالانکہ دلہن اس وقت بن سنور کر بیٹھی ہوتی ہے اور نیز یہ کہ مرد و زن کی مخلوط مجلس لگتی ہے، اور یہ دونوں چیزیں حرام ہیں۔

جیسے کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے آپ کو عورتوں کے پاس جانے سے بچاؤ) تو انصار میں سے ایک شخص نے کہا: “اللہ کے رسول آپ ہمیں دیور کے بارے میں بتلائیں” تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (دیور تو موت ہے)
اس حدیث کو امام بخاری: (4934) اور مسلم : (2173)نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث کی شرح میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : (دیور تو موت ہے)اس کا مطلب یہ ہے کہ دیور سے خدشات دیگر کسی بھی شخص سے زیادہ ہیں، اس سے برائی کی توقع زیادہ ہے؛ کیونکہ دیور عورت کے پاس جانے اور خلوت اختیار کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے اور کوئی اسے گھر میں جانے سے روکتا بھی نہیں ہے، جبکہ کوئی اور کسی کے گھر میں داخل ہو تو سب اسے روکتے ہیں۔ حدیث کے عربی الفاظ میں “حمو” سے مراد خاوند کے آبا اور بیٹوں کے علاوہ تمام تر رشتہ دار ہیں، آبا اور بیٹے اس عورت کے محرم شمار ہوں گے، وہ عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کر سکتے ہیں انہیں موت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا ۔ تو یہاں موت سے مراد خاوند کے بھائی، خاوند کے بھتیجے، چچا، خاوند کے چچا زاد بھائی ہیں جو محرم تو نہیں ہیں لیکن لوگ ان کے بارے میں قدرے نرم رویہ رکھتے ہیں، تو یہ نا محرم اپنے بھائی کی بیوی کے ساتھ تنہائی میں چلے جاتے ہیں، تو یہ خلوت موت ہے، اس لیے خاوند کے نا محرم رشتہ داروں کو دیگر کسی بھی اجنبی سے زیادہ روکنا چاہیے؛ اس کی وجہ ہم نے پہلے بیان کر دی ہے، تو جو حدیث کا مفہوم میں نے بیان کیا ہے وہی درست اور صحیح ہے” ختم شد
شرح مسلم ” ( 14 / 153 )

مرد و زن کے اختلاط کے متعلق تفصیلات پہلے سوال نمبر: (1200) میں ذکر کر آئے ہیں، آپ اس کا مطالعہ ضرور کریں۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے اہل خانہ کو اور تمام مسلمانوں کو ہدایت دے، انہیں برائیوں کو ترک کر کے ان سے نفرت کرنے کی توفیق سے نوازے، نیز صرف وہی کام کرنے کی توفیق دے جن میں بھلائی ، اور خیر ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android