0 / 0

مٹى كے تحفے فروخت كرنے اور دوكان ميں نماز ادا كرنے كا حكم

سوال: 32730

ميں نوجوان ہوں اور ايك مستقل دوكان ميں ملازمت كرتا ہوں جہاں اجنبى سياحوں كو مٹى كے بنے ہوئے تحفے فروخت كرتا ہوں، كيا اس دوكان ميں ميرے ليے شرعا فرضى نماز ادا كرنا جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ يہ مستحيل ہے كہ كوئى سياح دوكان ميں آئے اور اس كے ہاتھ ميں شراب ہو ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

مسلمانوں اور كفار كے ليے مٹى كے بنے ہوئے تحفے فروخت كرنا جائز ہے ليكن اگر يہ تحفے مجسموں اور ذى كى اشكال ميں ہوں تو انہيں فروخت كرنا اور ان كى تجارت كرنا حلال نہيں، الا يہ كہ ان كے سر كاٹ ديے جائيں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

مسلمان شخص كے ليے مجسمے فروخت كرنے يا ان كى تجارت كرنى جائز نہيں، كيونكہ صحيح احاديث ميں ذى روح كى تصاوير اور مطلقا مجسمے بنانا اور انہيں باقى ركھنے كى حرمت ثابت ہے، اور بلاشك اس كى تجارت كرنا مجسموں اورتصاوير كى ترويج اور تصاوير و مجسمے بنانے اور انہيں گھروں وغيرہ ميں ركھنے ميں معاونت ہوتى ہے.

اور جب يہ حرام ہے تو پھر اسے فروخت كرنا اور اس كى كمائى بھى حرام ہوئى، كسى بھى مسلمان كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس كمائى كو كھائے اور اس سے معيشت حاصل كرے، اس بنا پر اگر ايسا ہو بھى جائے تو اس كمائى سے خلاصى اور چھٹكارا حاصل كر كے اللہ تعالى سے توبہ و استغفار كرے، ہو سكتا ہے اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كر لے.

فرمان بارى تعالى ہے:

يقينا ميں اسے بخشنے والا ہوں جو توبہ كرتا اور ايمان لاتا اور اعمال صالحہ كر كے ہدايت پر چلتا ہے.

ہمارى جانب سے ذى روح چاہے وہ مجسمہ ہو يا غير مجسمہ تصاوير كى حرمت كا فتوى جارى ہو چكا ہے، چاہے وہ كريد كر بنايا گيا ہو يا پھر بناوٹ ميں يا رنگ كر يا جديد قسم كے كيمرہ سے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 521 ).

اور سوال نمبر ( 34839 ) كے جواب ميں مجسموں كى تيارى اور اس فعل كى حرمت كى تفصيل بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

دوم:

اور رہا نماز كا مسئلہ، مسجد ميں باجماعت نماز ادا كرنا واجب ہے، اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 120 ) كے جواب كا مطالعہ كريں، اگر مسجد آپ كے قريب ہے اور آپ اس كى اذان لاؤڈ سپيكر كے بغير سن سكتے ہيں تو اس مسجد ميں آپ كا نمازباجماعت ادا كرنا واجب ہے.

اور اگر مسجد اتنى دور ہے كہ آپ لاؤڈ سپيكر كے بغير اس كى اذان نہيں سن سكتے تو پھر آپ دوكان ميں نماز ادا كرسكتے ہيں، اور افضل يہ ہے كہ آپ سب نماز كے ليے ايك جگہ مقرر كريں جہاں نماز باجماعت ادا كى جائے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا گھر سے مسجد كى مسافت كى تحديد ہو سكتى ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

مسافت ميں كوئى شرعى تحديد نہيں، بلكہ يہ عرف يا پھر لاؤڈ سپيكر كے بغير اذان سننے كے اندازے پر مقرر ہو سكتى ہے.

اسئلۃ الباب المفتوح سوال نمبر ( 700 ).

آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 20655 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android