بچوں میں عام طور پر کھیلی جانے والی گیمیں مثلاً: طاق اور جفت کھیلنا، " Murder in the Dark " اسی طرح " Rock paper scissors" یعنی پتھر، کاغذ اور قینچی کا کھیل، یعنی ایسے کھیل جن میں قسمت پر زیادہ اعتماد ہوتا ہے یہ سب کے سب لڈو اور شطرنج جیسا حکم رکھتے ہیں؟
کیا ایسی گیم کھیلنا حرام ہے جس میں صرف قسمت کا اعتبار ہوتا ہے؟
سوال: 335520
جواب کا خلاصہ
ایسے کھیل جو کہ اندازوں، تخمینوں اور قسمت کی بنیاد پر کھیلے جاتے ہیں انہیں متعدد فقہائے کرام نے نرد [یعنی لڈو میں استعمال ہونے والا دانہ] پر قیاس کرتے ہوئے حرام قرار دیا ہے، اس دانے کو پھینک کر اپنے آپ کو کھیل میں بچانا اور تخمینے لگانا نہایت ہی نامعقول اور بے وقوفی والی بات ہے۔ اس لیے ایسی تمام کھیلوں سے مطلق طور پر بچنا چاہیے جن میں قسمت پر اعتماد ہو، ان کے علاوہ بہت سے ایسے کھیل موجود ہیں جن میں ذہنی مشق بھی ہے اور جسمانی ورزش بھی۔
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ایسے کھیل جو کہ اندازوں، تخمینوں اور قسمت کی بنیاد پر کھیلے جاتے ہیں انہیں متعدد فقہائے کرام نے نرد پر قیاس کرتے ہوئے حرام قرار دیا ہے۔
اور نرد کے بارے میں "الموسوعة العربية العالمية" میں ہے کہ:
"یہ ایک مکعب شکل کا چھوٹا سا دانہ ہوتا ہے جیسے قسمت کی بنیاد پر کھیلے جانے والے متعدد کھیلوں میں استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہ Craps گیم میں ہوتا ہے، یہ کھیل جوئے کی ایک شکل ہے جس میں نرد کے دو دانے استعمال ہوتے ہیں، یہ لکڑی وغیرہ کے تختوں کے ذریعے کھیلی جانے والی کھیلوں میں استعمال ہوتے ہیں، عربی میں اس دانے کو نرد کہتے ہیں [جبکہ ہمارے ہاں اردو میں اسے دانہ یا بعض علاقائی لہجوں میں چھکا بھی کہتے ہیں۔ مترجم] ہر دانے کی چھ جہتیں ہوتی ہیں اور ہر جہت میں ایک سے لیکر چھ تک نشانات بنے ہوتے ہیں" ختم شد
اس دانے یا چھکے سے کھیلنا حرام ہے؛ کیونکہ صحیح مسلم : (2260) میں بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص نرد شیر [چھکے یا دانے ] سے کھیلے گویا کہ اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے گوشت اور خون میں لت پت کر لیا۔ )
اسی طرح سنن ابو داود: (4938) اور ابن ماجہ: (3762) میں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص نرد شیر [چھکے یا دانے ] سے کھیلے تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔) اسے البانیؒ نے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے۔
امام نووی ؒ صحیح مسلم کی شرح میں مذکورہ حدیث کی تفصیل لکھتے ہوئے رقمطراز ہیں:
"نرد شیر اصل میں نرد [یعنی دانے اور چھکے پر بولتے ہیں] ہے اور یہ نرد کا لفظ عجمی اور معرّب ہے، اس میں شِیر کا معنی میٹھا ہے۔
یہ حدیث امام شافعی اور جمہور اہل علم کی دلیل ہے کہ نرد سے کھیلنا حرام ہے۔۔۔
جبکہ خنزیر کے گوشت اور خون میں ہاتھ رنگنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح خنزیر کا گوشت کھاتے ہوئے ہاتھ خون سے لتھڑ سکتے ہیں اور خنزیر کھانا حرام ہے تو اسی طرح نرد شیر سے کھیلنا بھی حرام ہے۔ واللہ اعلم" ختم شد
کچھ فقہائے کرام ایسے بھی ہیں جنہوں نے نرد سے ایسی گیموں کو بھی ملا دیا ہے جن میں مطلق طور پر قسمت اور اندازوں سے کھیلا جاتا ہے۔
جیسے کہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ "تحفة المحتاج شرح المنهاج" (10/ 215) میں لکھتے ہیں:
"صحیح موقف کے مطابق نرد سے کھیلنا حرام ہے؛ کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ: (جو شخص نردشیر سے کھیلے گویا کہ اس نے اپنے ہاتھ کو خنزیر کے گوشت اور خون میں لت پت کر لیا۔) جبکہ سنن ابو داود کی روایت میں ہے کہ: (یقیناً اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی)
چنانچہ اس دانے یا چھکے میں بنیادی طور پر اندازہ اور تخمینہ ہی کارفرما ہوتا ہے جو کہ نہایت ہی پاگل پن اور بیوقوفی ہے۔
علامہ رافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
فقہائے کرام نے اس پر مزید گفتگو کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نردشیر اور شطرنج کے ساتھ ہر وہ چیز شامل ہو جائے گی جن میں انہی جیسی لہو چیزیں پائی جائیں؛ چنانچہ کوئی بھی ایسا کھیل جن میں حساب اور غور و فکر کارفرما ہوں جیسے کہ ایسی لکیریں جن پر چلتے ہوئے حساب کی بنیاد پر گوٹیوں کو آگے پیچھے کیا جاتا ہے تو ایسے کھیل حرام نہیں ہیں۔۔۔
اور جس کھیل میں بھی صرف تخمینہ اور اندازے کارفرما ہوں تو وہ حرام ہے۔۔۔
ایسے کھیلوں میں "کنجفہ" نامی کھیل بھی ہے، اس کھیل میں کاغذ کے پرزوں پر تصاویر بنی ہوتی ہیں۔" مختصراً ختم شد
مزید کے لیے آپ "نهاية المحتاج" (8/ 295) کا مطالعہ کریں۔
کنجفہ نامی کھیل کے بارے میں "حاشية الرشيدي على نهاية المحتاج" (8/295) میں ہے کہ:
"کنجفہ : یہ نقش و نگار بنے ہوئے کاغذ کے پرزے ہوتے ہیں جیسے کہ اذرعی ؒ نے ذکر کیا ہے، جبکہ تحفۃ المحتاج میں ہے کہ: کنجفہ نامی کھیل میں استعمال ہونے والے کاغذوں پر تصاویر بنی ہوتی ہیں۔" ختم شد
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (15/231) میں تاش کھیلنے کے بارے میں حرمت کا فتوی دیا ہے اگرچہ اس میں جوّا نہ بھی ہو، یہی فتوی ابن عثیمین رحمہ اللہ نے دیا ہے، مزید کے لیے آپ دیکھیں: "قضايا اللهو والترفيه" از: مادون رشيد ، ص:186
جبکہ شطرنج کے بارے میں اکثر اہل علم یہی کہتے ہیں کہ شطرنج کھیلنا بھی حرام ہے۔
جیسے کہ سنن الکبری از بیہقی (10/212) میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ : سیدنا علی رضی اللہ عنہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو وہ شطرنج کھیل رہے تھے تو فرمایا: یہ کون سے بت ہیں جن پر تم جھکے ہوئے بیٹھے ہو!
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (14095 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اسی طرح تاش کھیلنے کے حرمت کے بارے میں آپ سوال نمبر: (12567 ) کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں۔
تو خلاصہ ہو ا کہ: ایسی تمام کھیلوں سے مطلق طور پر بچنا چاہیے جن میں قسمت پر اعتماد ہو، نیز ان کے علاوہ دیگر بہت سے ایسے کھیل موجود ہیں جن میں ذہنی مشق بھی ہے اور جسمانی ورزش بھی۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات