میری عمر جس وقت 10 یا 9 سال تھی تو میں بالغ ہو گئی تھی، لیکن اب مجھے یہ بالکل بھی یاد نہیں ہے کہ کیا میں نے بلوغت کے پہلے سال میں روزے رکھے تھے یا نہیں؟ مجھے اس بارے میں شک ہے تو اب میں کیا کروں؟ کیا ان دنوں کے روزوں کی قضا دوں؟
لڑکی کو شک ہے کہ بلوغت کے فوری بعد آنے والے رمضان کے روزے اس نے رکھے تھے یا نہیں، تو اب وہ کیا کرے؟
سوال: 337886
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر آپ کی روزے رکھنے کی عادت بچپن سے ہی ہے تو پھر اصل یہی ہے کہ آپ نے اس رمضان کے بھی روزے رکھے ہیں، اس لیے شک کی طرف بالکل دھیان نہ دیں۔
اور اگر روزے رکھنے کی عادت آپ کو بچپن سے نہیں ہے تو پھر ایسی صورت میں یہ ہو سکتا ہے کہ آپ دوسروں سے اپنے بارے میں پوچھیں اور وہ آپ کے روزے رکھنے کے بارے میں گواہی دیں، مثلاً: آپ اپنے گھر والوں سے پوچھیں ، تو اگر وہ کہیں کہ آپ نے روزے رکھے تھے تو پھر آپ پر کچھ بھی لازم نہیں ہے، اور ان کی گواہی غالب گمان کا فائدہ دی گئی اور احکام غالب گمان پر بھی اسی طرح مرتب ہوتے ہیں جس طرح یقین پر ہوتے ہیں۔
فقہ کا ایک قاعدہ ہے کہ: "بڑی رائے کے مطابق عمل کرنا جائز ہے۔"
ڈاکٹر محمد صدقی برنو "موسوعة القواعد" (7/456) میں کہتے ہیں:
"بڑی رائے کا مطلب ہے کہ غالب گمان اور زیادہ درست محسوس ہونے والا موقف۔
تو اس قاعدے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ: جس وقت یقین نہ ہو تو ایسی صورت میں کسی حکم تک پہنچنے کے لیے غالب گمان کافی ہوتا ہے؛ کیونکہ اکثر احکامات میں قطعی حکم لگانا مشکل ہوتا ہے۔" ختم شد
دوم:
چنانچہ اگر غالب گمان یہ نہیں ہے کہ آپ نے روزے رکھے ہیں، تو پھر آپ کو قضا دینا ہو گی؛ کیونکہ اصل عدم فعل ہے۔
جیسے کہ علامہ قرافی رحمہ اللہ "الفروق" (1/227) میں کہتے ہیں:
"جب کسی کو شک ہو کہ اس نے روزہ رکھا ہے یا نہیں؟ تو پھر اس صورت میں روزہ رکھنا ہو گا۔" ختم شد
مذکورہ تمام تر گفتگو ایسی صورت میں ہے جب سائل بہن کو وسوسوں کی بیماری نہ ہو، چنانچہ اگر اسے وسوسوں کی بیماری ہے تو پھر وہ وسوسوں کی جانب توجہ ہی نہ دے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب