فروخت كرنے كى غرض سے خريدى گئى اراضى كى زكاۃ كس طرح ادا كى جائيگى، اراضى كچھ مدت ركھى جائيگى تا كہ اسے فروخت كيا جاسكے ؟
كچھ مدت بعد فروخت كرنے كى غرض سے خريدى گئى زمين كى زكاۃ كس طرح ادا كى جائيگى ؟
سوال: 38886
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كچھ مدت بعد فروخت كرنے كى غرض سے خريدى گئى اراضى دو حالتوں سے خالى نہيں:
پہلى حالت:
اس سے مال محفوظ كرنا مقصود ہو تا كہ وہ رقم كہيں اور صرف نہ ہو جائے، اور اس سے تجارت يا منافع حاصل كرنا مقصود نہ ہو، تو اس ارضى ميں زكاۃ نہيں ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (34802 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوسرى حالت:
اس اراضى سے تجارت اور منافع حاصل كرنا مقصود ہو، تو يہ اراضى تجارتى سامان ميں شامل ہو گى اور اس ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے.
اور سال كے آخر ميں تجارتى سامان كى قيمت لگا كر اس ميں سے دس كا چوتھائى حصہ يعنى اڑھائى فيصد ( 2.5 % ) كے حساب سے زكاۃ ادا كى جائيگى گى، اور اس كى قيمت خريد كو مد نظر نہيں ركھا جائيگا.
مثلا اگر كوئى زمين ايك لاكھ ريال كى خريدى گئى ہو تو سال كے آخر ميں زكاۃ واجب ہونے كے وقت اس كى قيمت ايك لاكھ پچاس ہزار ريال كے برابر ہو تو سال پورا ہونے پر اس ايك لاكھ دس ہزار كى زكاۃ ادا كرنى واجب ہے، اور اگر اس كے برعكس ہو تو معاملہ بھى برعكس ہو گا.
اگر زمين ايك لاكھ ميں خريدى اور سال مكمل ہونے كے وقت اس كى قيمت صرف پچاس ہزار ريال كے برابر ہو تو آپ كے ذمہ صرف پچاس ہزار ريال كى زكاۃ نكالنا واجب ہو گى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 334 ) فتاوى و رسائل الشيخ ابن عثيمين ( 18 / 205 ، 236 ).
تنبيہ:
يہ جاننا ضرورى ہے كہ تجارتى سامان كا سال زمين وغيرہ كى خريدارى كے وقت سے نيا شروع نہيں ہو گا، بلكہ وہ اس نقدى كا نصاب پورا ہونے كے وقت سے شروع ہو گا جس كے ساتھ وہ سامان خريدا گيا ہے.
اور اس بنا پر؛ اس اراضى كا سال اس رقم كا سال ہى ہو گا جس رقم سے يہ اراضى خريدى گئى ہے.
مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر (32715 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات