سلمان رشدی نے کتاب ” شیطانی آیات ” میں یہ کہا ہے کہ بعض قرآنی آیات مکہ میں جوتین مشہورو معروف اور محبوب رب سمجھے جاتے تھے ان کی موافقت نازل ہوئيں تاکہ وہ باقیوں کے قائد بن سکیں ۔
تویہ آیات منسوخ کردی گئيں ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیات جبریل علیہ السلام کے ذریعہ سے نازل نہیں ہوئيں بلکہ شیطان نے یہ وسوسہ ڈالا اور نبی صلی علیہ وسلم کواس وقت اس کا علم بھی نہ ہوسکا ۔
توکیا یہ صحیح ہے ؟ اوراگر اس میں کچھ تھوڑی بہت صحت کی نسبت پائ جاتی ہے تو وہ کیا نسبت ہے ؟
گزارش ہے کہ جوکچھ ہوا اس کی حقیقی روایت ذکرکریں ۔
کتاب ” شیطانی آیات ” کی روایات کی صحت
سوال: 4135
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ
یہ کلام ایک باطل روایت پر مبنی ہے جسے ابن کثیروغیرہ نے نقل کیا ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہی نہیں ، وہ ہم ذیل میں ذکرکررہے ہیں :
کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین پر سورۃ النجم پڑھی اورجب اس آیت افرایتم اللات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری ( کیا تم نے لات اورعزی کو دیکھا اورمنات تیسرے پچھلے کو ) شیطان نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یہ قول جاری کردیا ( تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھم لترتجی ) یہ بلند وجیمل ہیں اوران کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے ۔
جب کفارنے ان تین بتوں کی یہ مدح وتعریف سنی تووہ سب سجدہ میں گر گۓ ۔
تویہ روایت کئ ایک وجوہ کی بنا پر باطل ہے :
1 – اس کی سندیں واھی ہیں جو کہ صحیح نہیں ۔
2 – یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ رسالت میں معصوم ہیں ۔
3 – اگر یہ اثر بالفرض صحیح بھی ہو تو علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ یہ اس اشیاء میں سے ہے جوکہ شیطان نے کفارکے کانوں میں ڈال دیا تھا نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےسنا ہو۔
آپ سورۃ الحج آیت نمبر ( 52 ) کی تفسیر میں ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کا اس پررد کی گئ کلام کا ملاحظہ کریں ۔
واللہ تعالی اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد