میں فرانس میں مقیم ہوں، مجھے افسوس ہے کہ میرا بیٹا جنسی بے راہ روی کا شکار ہو چکا ہے، میرے دو سوال ہیں، ان کا جواب دینے پر میں آپ کا پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ کیا میں اپنے بیٹے کے کاموں کا اللہ تعالی کے سامنے جوابدہ ہوں گا؟ میں نے اس سے ہر قسم کا تعلق ختم کر دیا ہے، تو کیا یہ اقدام جائز ہے؟ یا یہ قطع رحمی میں آئے گا؟
جنسی بے راہ روی کے شکار بیٹے کے ساتھ برتاؤ کے متعلق نصیحتیں
سوال: 438124
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہم نے آپ کا خط پڑھا اور ہم بھی آپ کے دردِ دل کو محسوس کر رہے ہیں، پڑھ کر ہمیں بھی آپ کی طرح بہت زیادہ دکھ ہوا ہے ، ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے بیٹے کو عافیت سے نوازے، اسے سلیم الفطرت اور صحیح سلامت بنا کر اپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے، اور وہ دن بھی جلد آئے کہ جس میں آپ کا بیٹا سدھر کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرے۔
آپ کے سوال میں دو چیزیں ہیں:
اول: آپ کے بیٹے کے منحرف ہو جانے کی وجہ سے اللہ تعالی کے سامنے آپ کی ذمہ داری
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے بچوں کی تربیت کی ذمہ داری والدین کی لگائی ہے اور انہیں اس کا حکم بھی دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔ [التحریم: 6]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ہر آدمی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا۔ حکمران ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر کے معاملات کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔) بخاری: (853)
ہم اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آپ ایک ایسے ملک میں اس ذمہ داری کو کس حد تک نبھاتے ہیں جہاں اسکولوں، میڈیا اور دیگر اداروں میں بچوں پر اثر انداز ہونے والی گہری قوتوں سے آپ کا مقابلہ ہے، لہذا بچوں کی صحیح پرورش کی ذمہ داری ان لوگوں کے لئے مزید زیادہ ہو جاتی ہے جو اپنے بچوں کے رہنے کے لیے کافروں کی سرزمین کا انتخاب کرتے ہیں، اور پھر وہاں پر مسلمان خاندان اس انتخاب پر بھاری اخلاقی قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو کافروں کے علاقے میں رہائش پذیر ہونے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ممانعت ان کے علاقے میں ٹھہرنے کی وجہ سے رونما ہونے والی خرابیوں کے پیش نظر ہی فرمائی ہے، ان خرابیوں سے وہی بچ پاتا ہے جنہیں اللہ تعالی بچا لے۔
چنانچہ اگر والدین کی طرف سے کوئی کوتاہی اور کمی ہوئی ہے تو پھر توبہ اور استغفار کریں۔
اب جو کچھ بھی ہوا سو ہوا، اب ہماری سمت پہلے سے موجود مسائل کو حل کرنے کی طرف ہونی چاہیے ، اور اس لیے کہ آئندہ کوئی مزید مسئلہ پیدا نہ ہو کہ اللہ نہ کرے اس کے چھوٹے بھائی اس بیماری میں مبتلا ہو جائیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (52893) کا جواب ملاحظہ کریں۔
آپ کے سوال کا دوسرا حصہ اپنے بیٹے سے قطع تعلقی کے متعلق ہے۔
آپ نے سوال میں اپنے بیٹے کی عمر نہیں بتلائی، نہ ہی یہ بتلایا ہے کہ اس میں یہ بے راہ روی کے اثرات کب سے رونما ہونا شروع ہوئے تھے۔ بہ ہر حال بیٹے سے قطع تعلقی کرنے سے پہلے کچھ مراحل اور مفید اسالیب و طور طریقے ہیں جنہیں اپنانے سے آپ کے بیٹے کو راہ راست پر لایا جا سکتا ہے اور اسے بے راہ روی سے بچایا جا سکتا ہے، بالخصوص اگر بچے کی عمر 20 سال سے کم ہے؛ کیونکہ قطع تعلقی سے وہ مزید بگڑ سکتا ہے؛ اس لیے کہ آپ ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اس قسم کی صورت حال ہر سمت میں پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے بچہ مزید خراب ہو سکتا ہے، چنانچہ ہم آپ کو یہ مشورہ دیں گے کہ:
اول: آپ قطع تعلقی مت کریں، یا اسے گھر سے مت نکالیں، کیونکہ جس قدر بچہ آپ کے ساتھ رہے گا اس کے راہ راست پر آنے کے امکانات اتنے ہی روشن ہوں گے، آپ اس کے لیے بلا واسطہ اور بالواسطہ ہمہ قسم کے ذرائع اور وسائل اپنا سکتے ہیں۔
چنانچہ آپ اپنے اس بیٹے کو اسلامی مراکز میں یا کسی بھی ایسی جگہ لے کر جا سکتے ہیں جہاں آپ یہ سمجھیں کہ آپ کا بیٹا وہاں جانے سے توبہ کی طرف جلدی آئے گا اور اپنی گھٹیا حرکت سے دور ہو جائے گا۔
جس وقت تک انسان کے جسم میں روح ہے تب تک مایوس نہیں ہونا چاہیے!
سیدنا لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے ساتھ آخری لمحے تک رابطہ رکھا حالانکہ آپ کی قوم انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں جنسی بے راہ روی کا شکار تھی۔
اس گھٹیا حرکت میں ملوث شخص کے علاج کے لیے مؤثر ترین ذریعہ یہ ہے کہ: اسے اللہ تعالی کی یاد دلائیں، اللہ کے عذاب سے ڈرائیں، اسے بتلائیں کہ قوم لوط کا پھر کیا حال ہوا تھا، ان پر نازل ہونے والے عذاب کے بارے میں بتلائیں؛ اگر تو وہ شخص اللہ تعالی سے ڈر جائے، اور اللہ کی رحمت سے پر امید ہو تو ممکن ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس حرکت سے دور کرنا شروع کر دے، اپنے علاج کی کوشش کرے، ہوس پرستی اور شہوانی امور ترک کر دے، بلکہ ایسی بیماریوں اور بے راہ رویوں سے دور ہو جائے۔
دوم: آپ اپنے بیٹے کے مزید قریب ہو جائیں، جس قدر ہو سکے اسے اپنے ساتھ رکھیں، کوشش کریں کہ اس بچے کے ساتھ اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر ایمانیات کو جلا بخشنے والی مشترکہ سرگرمیاں مرتب کریں، مثلاً: قرآن کریم کی تلاوت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کا مطالعہ، اور یہ بھی بہت اچھا ہو گا کہ آپ اپنے بیٹے کے ہمراہ عمرے کے لیے تشریف لے جائیں، اس سے بھی زندگی میں بہتری کا امکان روشن ہو جائے گا۔
سوم: آپ کوشش کریں کہ اپنا علاقہ چھوڑ کر کسی ایسی جگہ منتقل ہو جائیں جہاں بیٹے کا جنسی بے راہ روی سے دور ہو جانے کا امکان زیادہ روشن ہو جائے، چاہے اس کے لیے آپ کو کچھ زیادہ تکالیف اٹھانی پڑیں ، یا واپس اپنے اسلامی ملک میں آنا پڑے۔
چہارم: یہ بات ذہن میں رکھیں امید ہمیشہ قائم رکھنی چاہیے، اس لیے آپ اپنے بیٹے کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں، بچے پر براہ راست اثر انداز ہونے کے لیے جواں مردی اور عزم مصمم پیدا کرنے کے لیے بیٹے کے ساتھ مل کر ایسی مناسب اور مؤثر دستاویزی فلمیں اور ویڈیو کلپ دیکھیں کہ جس میں بہادری اور کامیابی پر ترغیب دی گئی ہو، ان سب چیزوں کے اثرات لاشعور میں جا کر انسانی عقل کو درست سمت پر لگائیں گے، اور ان شاء اللہ آپ کا بیٹا راہِ راست پر آ جائے گا۔
پنجم: اپنے بیٹے کو کچھ ایسے کاموں میں مشغول کریں جن سے وہ اپنے وقت کو جسمانی اور مالی فوائد کے لیے کام میں لے آئے، مثلاً: سخت قسم کی جسمانی ورزش پر مشتمل کھیل، یا پارٹ ٹائم کہیں پر اسے ملازمت میں لگائیں، تا کہ اس کے پاس فارغ وقت ہی باقی نہ رہے، اور اسے مالی فائدہ بھی ہو جائے۔
ان تمام کاموں سے پہلے بارگاہِ الہی میں خوب گڑگڑا کر دعائیں مانگیں، کہ اللہ تعالی آپ کے بیٹے کو عافیت سے نوازے اور حق و سچ راستے پر چلائے، اسے بھلائی اور سچی توبہ کرنے کی توفیق سے نوازے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات