ميرا ايك بھائي اللہ تعالى كي رضا سے وفات پا گيا ہے اور اس كے چھ بچے ہيں كيا ميں اس كے ايك بچے كي كفالت كر سكتا ہوں يا كہ رشتہ دار يتيم كي كفالت كرنا جائز نہيں؟
اور اگر ميرے لئے كفالت كرنا جائز ہو تو كيا يہ كفالت اس حالت ميں صحيح ہے كہ ميں ايك عرب ملك ميں ہوں اور وہ دوسرے عرب ملك ميں بستے ہيں، صرف ميں انہيں ماہانہ كچھ رقم ارسال كرتا رہوں اور اس كے ساتھ جب وہاں جاؤں تو ان كے لئےكچھ تحفے وغيرہ بھي ليتا جاؤں، يہ علم ميں ركھيں كہ مجھے سالانہ چھٹى ملتى ہے؟
اور كيا كفالت كي رقم سال ميں دو بار بھيجنى جائز ہے ؟
قريبى رشتہ دار يتيم كي كفالت كرنا
سوال: 47061
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بلا شك يتيم كي كفالت ايك عظيم نيكي كا كام اور خيرو بھلائي اور قابل ستائش خصلت ہے، اور اللہ تعالى نے اپنى كتاب حميد ميں اس كا حكم بھي ديا ہے اور ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے احاديث ميں اس كي فضيلت بھي بيان فرمائى ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
اور تم اللہ تعالى كي عبادت كرو اور اس كے ساتھ كسي كو بھى شريك نہ بناؤ، والدين اور رشتہ داروں اور يتيموں، مسكينوں اور رشتہ دار پڑوسيوں اور اجنبى ہمسايہ اور راہ كے مسافر، اور ان كے ساتھ جن كے تمہارے دائيں ہاتھ مالك ہوں ( يعني غلام ) كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى كرو، يقينا اللہ تعالى تكبر كرنے والوں اور شيخى خوروں سے محبت نہيں كرتا النساء ( 36 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اللہ تعالى نے فرمايا:
ليكن اچھا شخص وہ ہے جو اللہ تعالى اور يوم آخرت اور فرشتوں اور اللہ تعالى كي كتاب اور نبيوں پر ايمان ركھنے والا ہو، اور مال سے محبت ركھنے كے باوجود رشتہ داروں، يتيموں كو دے البقرۃ ( 177 ) .
اور سہل بن سعد رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں اور يتيم كي كفالت كرنے والا شخص جنت ميں اس طرح ہونگے، اور اپنے ہاتھ سے انگشت شہادت اور درميانى انگلى ملا كر كہا" صحيح بخاري حديث نمبر ( 5659 ) .
ايك دوسرى حديث ميں ہے ابو ہريرہ رضي اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميں اور يتيم اس كا رشتہ دار ہو يا كوئى اور جنت ميں اس طرح ہونگے اور مالك رحمہ اللہ نے اپنى درميانى اور شہادت والى انگلى سے اشارہ كيا" صحيح مسلم حديث نمبر ( 2983 ) .
يتيم كي كفالت صرف دور والوں يعنى غير رشتہ داروں پر ہي مقتصر نہيں بلكہ رشتہ دار يتيموں اور غير رشتہ داروں دونوں كي كفالت مستحب ہے، بلكہ قريبى اور رشتہ دار يتيم كي كفالت كرنے ميں تو ڈبل اجر ملتا ہے ايك تو صلہ رحمى اور دوسرا يتيم كي كفالت كا .
اس كي دليل مندرجہ بالا ابوہريرہ رضي اللہ تعالى عنہ كي حديث ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ميں لكھتے ہيں:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان ( لہ ) سے مراد يہ ہے كہ وہ اس كا دادا يا چچا يا بھائي يا كوئي دوسرا رشتہ دار ہو يا پھر بچے كا باپ فوت ہو چكا ہو اور اس كي ماں اس كے قائم مقام ہو. ديكھيں فتح البارى ( 10 / 436 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتےہيں كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا كہ ( لہ او لغيرہ ) سے مراد يہ ہے كہ اس كا قريبى ہو جيسا كہ اس كا دادا نانا اور اس كي ماں اور دادى نانى اور اس كا بھائى اور بہن اور چچا اور ماموں اور اس كي پھوپھى اور خالہ وغيرہ دوسرے رشتہ دار اور جو اس كے علاوہ دوسرے سے مراد اجنبى اور غير رشتہ دار مراد ہے. ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 18 / 113 ) .
جب يہ پتہ چل گيا تو پھر آپ كے لئے كسي دوسرے ملك ميں رہتے ہوئے يتيم كي كفالت كي رقم ارسال كرنا جائز ہوئى، اور آپ كے لئے يہ بھى جائز ہے كہ وہ رقم سال ميں سالانہ رقم دو بار كر كے بھيجھيں يا پھر اس سے بھى زيادہ بار يعنى ہر ماہ، ليكن اس ميں يتيم كي مصلحت كو مد نظر ركھيں تا كہ وہ مال كا محتاج نہ رہے.
اور جب آپ يتيم كے ملك كفالت كي رقم روانہ كريں تو يتيم كي ديكھ بھال كرنے والے شخص كو چاہئے كہ وہ يتيم پر بغير كسي اسراف اور فضول خرچي يا پھر كنجوسي كئے مال خرچ كرے .
ميرے بھائي آپ يہ بھي علم ميں ركھيں كہ يتيم كى كفالت كا سب سے اہم معنى اورمقصد يہ ہے كہ يتيم كي تربيت اور نشو نما صحيح اسلامى تعليمات كے مطابق ہو، لھذا آپ اس يتيم كي عمر كے مطابق اس كا خيال كرتے ہوئے اس كے مناسب كتابيں اور كيسٹيں وغيرہ روانہ كا ضرور اہتمام كريں اور خاص كر جب چھٹى جائيں تو ساتھ ليتے جائيں اللہ كے حكم سے اس كا بہت اچھا اثر ہو گا اور بہترين نتيجہ نكلے گا اور اس كے ساتھ ساتھ اس پر نرمى و شفقت بھي كريں جسے وہ كھو چكا ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ آپ كو اس كا اجر عظيم عطا فرمائے اور امت مسلمہ ميں آپ جيسے لوگوں كي كثرت فرمائے.
مزيد تفصيل اور اہميت كے پيش نظر سوال نمبر ( 5201 ) كا جواب ضرور ديكھيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات