ایک بالغ لڑکی رمضان میں چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء نہيں کرتی اوردلیل یہ دیتی ہے کہ کتاب وسنت میں کوئي شرعی دلیل نہيں جس میں یہ بیان ہوا ہو کہ ان ایام کی قضاء کرنا واجب ہے ، میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ کتاب ووسنت سے اس کی دلیل دیں تا کہ میں اس لڑکی کونصیحت کرسکوں ۔
اس کا گمان ہے کہ حائضہ عورت پر روزوں کی قضاء میں کوئي دلیل نہیں پائي جاتی
سوال: 49848
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مسلمانوں کے مابین یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ حائضہ عورت رمضان کے روزوں کی قضاء کرے گی ، اس کی دلیل سنت نبویہ میں بھی ملتی ہے اوراجماع بھی اس کی دلیل ہے ۔
معاذۃ رحمہا اللہ تعالی بیان کرتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا :
یہ کیا مسئلہ ہے کہ حائضہ عورت روزوں کی قضاء کرتی ہے لیکن نمازوں کی قضاء نہيں کرتی ؟
توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا فرمانے لگيں : کیا تم خارجی ہو ؟ میں نے کہا میں خارجی نہیں ، لیکن سوال کررہی ہوں ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے فرمایا : ہمیں بھی حیض آتا توہمیں روزوں کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا لیکن نماز کی قضاء کی حکم نہيں دیا جاتا تھا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 321 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 335 ) یہ الفاظ مسلم شریف کے ہيں ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
یہ حکم متفق علیہ ہے اورسب مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ حائضہ اورنفاس والی عورت پر اس حالت میں نماز اورروزہ فرض نہيں ، اوراس پربھی اجماع ہے کہ عورت پرنماز کی قضاء واجب نہيں ، اوران کا اس پربھی اجماع ہے کہ روزوں کی قضاء کرنا واجب ہے ۔
علماء رحمہم اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اس میں فرق یہ ہے کہ نماز بہت زيادہ ہے اوربار بار ادا کی جاتی ہے اس لیے اس کی قضاءکرنا مشکل ہے ، لیکن روزے ایسے نہیں اس لیے کہ پورے سال میں صرف ایک بار روزے فرض ہیں اورہوسکتا ہے اس دوران بھی حیض ایک یا دو دن ہو ۔ اھـ
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
( احروریۃ ) حروری حروراء کی طرف نسبت ہے جوکوفہ سے دو میل کے فاصلہ پر ایک بستی کانام ہے ۔
اورخوارج کا مذھب رکھنے والے حروری کہا جاتا ہے ، اس لیے کہ خوارج میں سے سب سے پہلا گرو جس نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف خروج کیا تھا ان کا تعلق بھی اسی بستی حروراء سے ہی تھا تواس لیے خوارج اسی نسبت سے مشہور ہوگئے ۔
خوارج کے بہت سارے فرقے اورگروپ ہیں ، لیکن ان سب میں ایک متفق اصول اورعقیدہ یہ ہے کہ وہ قرآن مجید میں جوکچھ موجود ہے اسے ہی لیتے ہیں اوراحادیث میں جوکچھ زيادہ بیان کیا گيا ہے اسے تسلیم نہیں کرتے بلکہ مطلقا اسے رد کردیتے ہیں ۔
اسی لیے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بھی معاذہ سے کواستفہام انکار کے الفاظ بولے تھے ۔ اختصار کے ساتھ نقل کیا ہے ۔
ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المغنی میں کہتے ہیں :
اہل علم کا اجماع ہے کہ حائضہ اور نفاس والی عورت کے لیے روزہ رکھنا حلال نہيں بلکہ وہ رمضان کے روزے نہيں رکھیں گی اوراس کے بدلے میں قضاء کریں گے ، اوراس پر بھی اجماع ہے کہ اگر وہ روزہ رکھ بھی لیں تویہ روزہ کفايت نہیں کرے گا ۔ اھـ
دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 3 / 39 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی " المجموع " میں کہتےہیں :
امت کا اس پر اجماع ہے کہ حائضہ عورت پر رمضان کے روزوں کی قضاء واجب ہے ، امام ترمذی اورابن المنذر ، ابن جریر ، اورہمارے اصحاب وغیرہ نے بھی اس میں اجماع نقل کیا ہے ۔ اھـ
دیکھیں : المجموع للنووی ( 2 / 386 ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی مجموع الفتاوی میں کہتے ہيں :
سنت نبویہ اورمسلمانوں کے اتفاق سے یہ ثابت ہے کہ حیض کا خون روزے کے منافی ہے ، لھذا حائضہ عورت روزے نہيں رکھے گی بلکہ روزہ کی قضاء کرے گی ۔ اھـ
دیکھیں : مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ( 25 / 219 ) ۔
یہ توسنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے دلیل تھی اورپھر علماء کرام کا اجماع بھی کئي ایک نے نقل کیا ہے جس مندرجہ بالا سطور میں تذکرہ بھی کیا جاچکا ہے ، توپھر اس کے بعد یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ :
حائضہ عورت پر روزوں کی قضاء کی کوئی دلیل نہیں پائي جاتی ؟ !
لھذا سوال میں جس لڑکی کی طرف اشارہ کیا گيا ہے اسے چاہیے کہ اس غلط بات سے اللہ تعالی کے ہاں توبہ کرے ، کیونکہ اس قول میں اللہ تعالی کی شریعت اوراس کے احکام کے خلاف کرنے کی جرات ہے ، جسے کسی چيز کا علم نہ اس پر واجب ہے کہ اہل علم سے اس کے بارہ میں سوال کرے اور اسے تلاش کرے ،اور اس کے لیے جائزنہيں کہ وہ اللہ تعالی کے دین میں بغیر علم کے کوئي بات اور کلام نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا حرام ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
آپ کہہ دیجۓ کہ میرے رب نے ظاہری اورباطنی فحاشیوں اورگناہ و بغاوت کو بغیر حق کے حرام کیا ہے ، اوریہ ( حرام ہے کہ ) تم اللہ تعالی کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرو جس کی اللہ تعالی نے کوئي دلیل نازل نہیں فرمائی ، اوریہ بھی حرام کیا ہے کہ توبغیر علم کے اللہ تعالی پر کلام کرتےپھرو الاعراف ( 33 )۔
اورمسلمان کو علم رکھنا چاہیے کہ اس سےجو کلام بھی صادر ہوتی ہے اس سے اس کے بارہ میں پوچھا جائے گا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
کوئي شخص بھی کلام نہیں کرتا مگر اس کےپاس لکھنے والے تیار ہوتے ہیں ق ( 18 ) ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں دین میں بصیرت عطا فرمائے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب