میری بیوی کے ہاں شعبان سے پندرہ یوم قبل ولادت ہوئي ہے ، توکیا جیسے ہی خون بند ہو اس پر سب شرعی تکالیف جاری ہوں گی اورکیااس کے لیے نمازادا کرنا اورتلاوت قرآن وغیرہ کرنا جائز ہے ، یا جیسا کہ بعض کہتے ہیں اسے چالیس یوم انتظار کرنا ہوگا ؟
عورت اگر چالیس یوم سے قبل پاک ہوجائے تووہ غسل کرکے نماز ادا کرے گي اورروزہ بھی رکھے گي
سوال: 50308
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جمہورعلماء کرام جن میں آئمہ اربعہ شامل ہیں کہ نفاس کی کم ازکم مدت کی کوئي حدنہیں جب بھی عورت نفاس سے پاک ہوگي اس پر غسل کرکے نمازادا کرنی اورروزہ رکھنا واجب ہے چاہے ولادت کے چالیس یوم سے قبل ہی خون بند ہوجائے ۔
اس لیے کہ شریعت میں اس کی کوئي تحدید نہیں کی گئي لھذا اس میں موجودگی کی طرف رجوع کیا جائے گا خون کی مدت کم بھی ہے اورزيادہ بھی پائي جاتی ہے ۔
المغنی ابن قدامہ ( 1 / 428 ) ۔
بلکہ بعض علماء کرام نے اس پر اجماع بھی نقل کیا ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اورتابعین اوراس کے بعد آنےو الے علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ نفاس والی عورت چالیس یوم نماز ترک کرے گي ، لیکن اگر وہ اس سے قبل پاک ہوجائے تواسے غسل کرکےنماز ادا کرنا ہوگي ۔ ا ھـ
دیکھیں : المجموع للنووی ( 2 / 541 ) ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :
کیا اگر عورت چالیس یوم سے قبل نفاس سے پاک ہوجائے تواس کےلیے نمازاورحج ادا کرنا اورروزے رکھنا جائز ہے ؟
شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :
جی ہاں اگر وہ چالیس یوم سے قبل پاک ہوجائے اوراس کا خون بند ہوجائے تو اس کے لیے نماز ادا کرنا اورروزے رکھنا اورحج وعمرہ کی ادائيگي اورخاوند کے لیے اس سے جماع کرنا جائز ہے ۔
اگر عورت بیس دن کےبعد پاک ہوجائے تووہ غسل کرکے نمازادا کرے گی اورروزے بھی رکھے گي اوراسی طرح اپنے خاوند کے لیے بھی حلال ہوگي ، اورعثمان بن ابوالعاص رضی اللہ تعالی عنہ کا اسے مکروہ کہنا کراہت تنزیہ پر محمول ہے اوران کا اجتھاد ہے جس کی کوئي دلیل نہيں ۔
صحیح یہی ہے کہ اس میں کوئي حرج نہیں کہ جب چالیس یوم سے قبل ہی پاک ہوجائے تواس کا طہر صحیح ہوگا اوراگر چالیس دن کے اندر ہی خون دوبارہ آنا شروع ہوجائے وہ نفاس کا خون ہی شمار ہوگا ، لیکن طہر کی حالت میں رکھے ہوئے روزے اورادا کردہ نمازیں اورحج وعمرہ صحیح ہوگا ، جب یہ سب کچھ طہر کی حالت میں ہو تو ان میں سے کچھ بھی نہيں لوٹایا جائے گا۔ اھـ ۔ مجموع الفتاوی لابن باز ( 15 / 195 )
فتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے :
اگر عورت چالیس یوم سے قبل ہی نفاس سے پاک ہوجائے تووہ غسل کرکے نماز ادا کرے اورروزے رکھے گی اوراس کا خاوند اس سے جماع بھی کرسکتا ہے ۔ ا ھـ
دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 5 / 458 ) ۔
لجنۃ دائمہ سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا :
ایک عورت کے ہاں رمضان سے سات دن قبل ولادت ہوئي اوراس نے پاک ہونے کےبعد روزے بھی رکھے توکیا یہ صحیح ہے ؟
کمیٹی کا جواب تھا :
اگرمعاملہ ایسے ہی ہوجیسا سوال میں ذکر کیا گيا ہے تواس عورت کے طہر کی حالت میں رکھے ہوئے روزے صحیح ہیں اوراس پر قضاءلازم نہيں ہوگي ۔ اھـ ۔
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 155 ) ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب