ہم ايك گاؤں ميں رہتى ہيں جہاں عورتيں مسجد ميں نہيں جاتيں، اور مسجد ميں عورتوں كے ليے جگہ بھى مخصوص نہيں ہے، تو كيا كچھ عورتيں كسى ايك گھر ميں جمع ہو كر باجماعت نماز تراويح ادا كر سكتى ہيں ؟
اور اگر ايسا كرنا جائز ہے تو كيا يہ نماز تراويح سرى ادا كريں يا كيا كريں ؟
اور اگر نماز جہرى ہو مثلا فجر يا مغرب اور عشاء كى نماز تو وہ يہ نمازيں باجماعت كس طرح ادا كريں، اور جماعت كرانے والى بھى ايك عورت ہو تو كيا وہ قرات اونچى آواز سے كرينگى يا نہيں ؟
كيا عورتيں نماز تراويح كے ليے كسى ايك گھر ميں جمع ہو سكتى ہيں ؟
سوال: 65965
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
عورتيں كسى ايك كے گھر ميں نماز تراويح كى ادائيگى كے ليے جمع ہو سكتى ہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ بن سنور اور ميك اپ كر كے نہ نكليں، اور فتنہ سے امن ہو.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” جب فتنہ سے امن ہو تو عورتيں عورتيں نماز تراويح ميں آ سكتى ہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ باپرد ہو كر نكليں، اور بے پردہ اور بن سنور كر اور خوشبو لگا كر نہ نكليں ” انتہى
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 14 ) سوال نمبر ( 808 ).
اور ان كے ليے افضل اور بہتر يہ ہے كہ ہر ايك عورت اپنے گھر ميں اكيلى نماز ادا كرے، بلكہ وہ اپنے گھر كے آخرى كمرہ ميں ادا كرے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بيان فرمايا ہے كہ عورتوں كى فرضى نماز گھروں ميں ادا كرنا مسجد ميں ادا كرنے سے بہتر اور افضل ہے، تو پھر نفلى نماز تو بالاولى گھر ميں بہتر ہو گى.
ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” عورتوں كے بہتر مسجديں ان كے گھر كى گھرائى ہے ”
مسند احمد حديث نمبر ( 26002 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 341 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
بلكہ عورت كا اپنے گھر ميں نماز ادا كرنا مسجد حرام يا مسجد نبوى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا ميں باجماعت نماز ادا كرنے سے بھى افضل اور بہتر ہے.
ابو حميد الساعدى رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى ام حميد رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور كہنى لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ كے ساتھ نماز ادا كرنا پسند كرتى ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
” مجھے علم ہے كہ تو ميرے ساتھ نماز ادا كرنا پسند كرتى ہے، تيرا گھر ميں نماز ادا كرنا تيرا اپنے كمرہ ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور گھر كے صحن ميں نماز ادا كرنا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور تيرا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنا ميرى مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے”
راوى كہتے ہيں كہ تو انہيں حكم ديا تو ان كے گھر كے آخر اور اندھيرے ميں نماز ادا كرنے كے ليے جگہ بنا دى گئى، تو وہ موت تك وہيں نماز ادا كرتى رہيں ”
مسند احمد حديث نمبر ( 26550 ) ابن خزيمہ رحمہ اللہ نے حديث نمبر ( 1689 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 340 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
امام ابن خزيمہ رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث پر مندرجہ ذيل باب باندھا ہے:
باب ہے عورت كا اپنے كمرہ ميں نماز ادا كرنا اپنے گھر ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور اس كا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنا مسجد نبوى ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے اگرچہ مسجد نبوى ميں نماز باقى مسجدوں سے ايك ہزار نماز سے افضل ہے، اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا مندرجہ ذيل فرمان ہے:
” ميرى مسجد ميں نماز باقى مسجدوں ميں ايك ہزار نمازوں سے افضل ہے”
اس سے مراد مردوں كى نماز ہے، نہ كہ عورتوں كى.
شيخ عبد العظيم آبادى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
عورتوں كى نماز گھر ميں افضل ہونے كى وجہ يہ ہے كہ اس سے وہ فتنہ سے امن ميں رہتى ہيں، اور اس كى تاكيد اس سے ہوتى ہے كہ جو كچھ عورتوں نے بے پردگى اور زيبائش اختيار كرنا شروع كى دى ہے”
ديكھيں: عون المعبود ( 2 / 193 ).
دوم:
جب مندرجہ بالا شروط كے مطابق عورتيں كسى گھر ميں جمع ہوں تو ان كے ليے جماعت كے ساتھ نماز ادا كرنا جائز ہے، اور ان كى امام كرانے والى عورت ان كے وسط ميں كھڑى ہو گى نہ كہ ان كے آگے، اور نہ ہى وہ اپنے محرم مردوں كى جماعت كرائے گى، اور وہ جھرى نمازوں ميں اسى طرح اونچى آواز سے پڑھے گى جس طرح مرد پڑھتے ہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اس كى آواز مردوں كو سنائى نہ دے، ليكن اگر اس كے محرم مردوں كو اس كى آواز جاتى ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں.
ام روقہ بنت عبد اللہ بن نوفل انصاريہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اپنے گھر ميں مؤذن ركھنے كى اجازت دى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اجازت دے دى، اور انہيں حكم ديا كہ وہ اپنےگھر والوں كى جماعت كروايا كرے”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 591 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 493 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ وہ اذان اور اقامت كہا كرتى اور عورتوں كے درميان كھڑے ہو كر ان كى جماعت كروايا كرتى تھيں.
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ انہوں نے فرضى نماز ميں عورتوں كى امام كروائى اور ان كے درميان ميں كھڑى ہوئيں.
اور حجيرۃ بنت حصين رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتى ہيں كہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے ہمارى امامت كروائى اور وہ عورتوں كے وسط ميں كھڑى ہوئيں.
اور ام الحسن بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيوى ام المؤمنين ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كو عورتوں كى امامت كرواتے ہوئے ديكھا، وہ ان كے ساتھ دو صفوں ميں كھڑى ہوتى تھيں.
شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى ان آثار كى تخريج كرنے كے بعد كہتے ہيں:
بالجملہ يہ آثار عمل كے ليے صحيح ہيں اور خاص كر جبكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مندرجہ ذيل فرمان كے عموم كى تائيد كرتے ہيں:
” عورتيں مردوں كى شقائق ہيں “
ديكھيں: صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم ( 153 – 155 ). مختصرا
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
عورت نماز ميں اونچى آواز سے پڑھے گى اور اگر وہاں ( مرد ) ہوں تو پھر وہ اونچى آواز سے نہيں پڑھے گى، ليكن اگر وہ مرد اس كے محرم ہوں تو پھر اونچى آواز ميں پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 17 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب