رمضان المبارك ميں عبادت اور اللہ كا قرب حاصل كرنے ميں مشغول بيوى كا اپنے خاوند كے قريب جانے سے انكار كرنے كے بارہ ميں شرعى حكم كيا ہے ؟
بيوى كا رمضان ميں عبادت كے ليے خاوند سے دور رہنا
سوال: 66621
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ماہ رمضان عبادت گزاروں كے ليے ايك عظيم موسم ہے كہ وہ عبادت زيادہ سے زيادہ كر كے اللہ كا قرب حاصل كريں، اور گنہگاروں كے ليے ايك عظيم موقع ہے كہ وہ اپنے گناہوں اور معاصى سے اجتناب كر كے اپنے مالك و پررودگار كے ساتھ تعلق كو مضبوط بنائيں، اور كثرت سے اطاعت كريں تا كہ وہ ايك نئى زندگى شروع كريں جس ميں گناہ و معصيت كى بجائے نيكى و بھلائى ہو.
احاديث ميں اس ماہ مبارك ميں روزے ركھنے اور اعتكاف كرنے اور قيام كرنے كى بہت سارى فضيلت وارد ہے، اسى طرح ماہ رمضان ميں ليلۃ القدر بھى پائى جاتى ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالى نے ايك ہزار راتوں سے بہتر بنايا ہے.
اس بنا پر اگر كوئى اس ماہ مبارك كو موقع غنيمت جان كر اپنے پروردگار كى اطاعت و فرمانبردارى ميں يكسو ہونا چاہتا ہے اور زيادہ عبادت كرنا چاہے تو اس پر انكار نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ اس ماہ مبارك ميں نفس قرآن مجيد كى تلاوت كرنے اور اللہ و رحمن كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے كے ليے تيار ہوتا ہے، چاہے مرد ہو يا عورت سب كے ہاں اللہ كى اطاعت كا جذبہ موجزن ہوتا ہے.
ابو ہريرہ رض اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى ايمان و احتساب يعنى اجروثواب كے حصول كى نيت سے ماہ رمضان ميں قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ معاف كر دي جاتے ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 37 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).
دوم:
عورت كے ليے جاننا ضرورى ہے كہ يہ جاننا ضرورى ہے كہ خاوند كے اپنى بيوى پر بہت عظيم حقوق ہيں، اس ليے انہيں خاوند كے ان حقوق كو ديوار پر نہيں مارنا چاہيے، اور نہ ہى اس كے ليے ايسى عبادت كرنى چاہيے جو خاوند كے حقوق كے متعارض ہوں.
عبد اللہ بن اوفى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جان ہے عورت اپنے پروردگار كے حقوق اس وقت تك ادا نہيں كر سكتى جب تك كہ وہ اپنے خاوند كے حقوق ادا نہ كرے، اور اگر خاوند اسے چاہے اور بلائے اور بيوى پالان پر بھى ہو تو يہ اسے خاوند كى بات ماننے كے ليے مانع نہيں "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1853 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1938 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
" القت " اونٹ كے ليے پالان " اس كا معنى يہ ہے كہ عورتوں كو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خاوند كى اطاعت پر ابھارا ہے، كہ عورت كے ليے اس حالت ميں بھى انكار كرنا جائز نہيں تو باقى حالات ميں كيسے جائز ہو گا ؟
ديكھيں: حاشيۃ السندى ابن ماجہ.
خاوند كے عظيم حق كى بنا پر ہى كچھ عبادات كرنے سے قبل عورت كو حكم ديا گيا ہے كہ اس اپنے خاوند سے اجازت حاصل كرے، كيونكہ ہو سكتا ہے يہ خاوند كے حقوق كے ساتھ متعارض ہوں، ان ميں بعض نفلى عبادات درج ذيل ہيں:
ـ نفلى روزہ:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" خاوند كى موجودگى ميں كسى بھى عورت كے ليے خاوند كى اجازت كے بغير نفلى روزہ ركھنا جائز نہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4896 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1026 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ اس نفلى اور مندوب روزے پر محمول ہے جو كسى خاص زمن كے ساتھ معين نہيں، اور يہ نہى تحريم كے ليے ہمارے اصحاب كا يہى كہنا ہے، اس كا سبب يہ ہے كہ خاوند كو سب ايام ميں بيوى سے استمتاع كا حق حاصل ہے، اور خاوند كا حق واجب اور فورى ہے اس سے يہ حق كسى نفلى اور مندوب چيز يا پھر ايسى واجب جو تاخير پر واجب ہو كے ساتھ ختم نہيں كيا جا سكتا " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم ( 7 / 115 ).
ـ مسجد ميں جانا:
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كسى كى بيوى مسجد جانے كى اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ كرے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4940 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 442 ).
سوم:
خاوند كو بھى اپنى بيوى كے بارہ ميں اللہ سے ڈرنا چاہيے اور وہ اس كى طاقت سے زيادہ اسے مكلف نہ كرے، كيونكہ ديكھا گيا ہے اكثر مرد حضرات بيوى كو دن كے وقت كھانے پكانے ميں مصروف ركھتے ہيں، اور رات كو ميٹھا بنانے ميں، تو اس طرح بيوى كے دن و رات ضائع ہوتے ہيں، نہ تو وہ دن كے وقت نفلى روزے ركھنے كى فرصت پاتى ہے، اور نہ ہى رات كے وقت عبادت و قيام كى.
كيونكہ بيوى كا اپنے خاوند پر حق حاصل ہے كہ بيوى كو بھى اس ماہ مبارك ميں اطاعت كرنے دى جائے، نہ تو خاوند اسے ماہ مبارك ميں قرآن مجيد كى تلاوت كرنے سے منع كرے اور نہ ہى رات كو قيام كرنے سے، بلكہ اس سلسلہ ميں انہيں پروگرام بنانا چاہيے تا كہ خاوند اور اللہ سبحانہ و تعالى كى اطاعت و عبادات كے حق ميں تعارض نہ ہونے پائے، يہ تو نفلى عبادات ميں ہے، ليكن فرضى عبادات ميں خاوند كو بالكل روكنے كا حق حاصل نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو اپنى بيويوں كے ساتھ اس طرح حسن معاشرت كرتے تھے كہ جب ماہ رمضان كا آخرى عشرہ شروع ہوتا تو آپ اپنى كمر كس ليتے اور بيويوں كو عبادت و اطاعت پر ابھارتے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" جب ماہ رمضان كا آخرى عشرہ شروع ہو جاتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى كمر كس ليتے اور راتوں كو بيدار رہتے اور اپنى بيويوں كو بھى بيدار كرتے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1920 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1174 ).
جب خاوند اور بيوى دونوں كو ہى ايك دوسرے كے حقوق كا علم ہو گا تو پھر غالب طور پر جھگڑا وغيرہ سے اجتناب رہتا ہے اور دونوں ہى راحت پاتے ہيں، اور جب انہيں علم ہو جائے كہ اس طرح كے مواقع تو ان كى زندگى ميں بار بار نہيں آئينگے بلكہ بہت كم مواقع حاصل ہوتے ہيں تو وہ ماہ رمضان كے ايام و راتوں كو موقع غنيمت جانتے ہوئے عبادت ميں مصروف رہيں گے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كے دلوں ميں الفت و محبت پيدا كرے، اور اطاعت و فرمانبردارى ميں آپ كا ممد و معاون ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب