0 / 0
6,18612/02/2006

عمرہ كرنا چاہتى ہے ليكن عورتوں كے ساتھ رش كا خدشہ ہے

سوال: 66800

ميں رمضان المبارك ميں عمرہ كرنا چاہتى ہوں، ليكن مردوں كے ساتھ بہت شديد اختلاط بلكہ بعض اوقات تو مردوں كے ساتھ بھى لگنا پڑتا ہے، تو كيا يہ جائز ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

مردوں اور عورتوں كے مابين اختلاط حرام ہے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 1200 ) ميں بيان ہو چكى ہے، آپ اسے ديكھ ليں.

دوم:

شرعى احكام نے عورت كى طبيعت اور اسے شيطان كا فتنہ ميں ڈالنے كا موقع حاصل كرنے كو بھى سامنے ركھا ہے، اسى ليے شرعى نصوص ميں اسے گھر ميں ہى رہنے كا حكم ديا گيا ہے، اور اسے بے پردگى اور مردوں كے ساتھ اختلاط اور ان ميں گھلنے ملنے سے منع كيا ہے، بلكہ شرعى نصوص تو عورت پر وہ كچھ واجب نہيں كرتيں جو مردوں پر واجب كيا گيا ہے، مثلا نماز جمعہ كے ليے مسجد ميں حاضر ہونا، اور نماز باجماعت ادا كرنا.

اور عورت كا مردوں كے ساتھ رش اور ميل جول ہى فتنے كا سب سے بڑا سبب ہے، اسى ليے شريعت اسلاميہ نے فتنے كے اس دروازے كو بند كيا ہے، اور عبادات كو ہر منافى چيز سے محفوظ ركھا ہے.

نماز عيد ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو عيدگاہ جانے كا حكم ديا ليكن عورتوں كى نماز كى جگہ مردوں سے دور اور خاص ہوتى ہے، اور اسى طرح حج اور عمرہ ميں بھى شريعت اسلاميہ نے مرد اور عورت كے مابين اختلاط كى ممانعت لائى ہے، اور ايسى امور لاگو كيے ہيں جس سے عورتيں مردوں كے ساتھ رش اور ميل جول سے محفوظ رہتى ہيں، يہ كئى ايك وجوہات كى بنا پر واضح ہوتا ہے:

پہلى وجہ:

شريعت اسلاميہ نے عورت پر حج يا عمرہ فرض ہى اس وقت كيا ہے جب اس كے پاس محرم ہو.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” عورت محرم كے بغير سفر نہ كرے، اور نہ ہى اس كے پاس محرم كے بغير كوئى غير مرد جائے، تو ايك شخص كہنے لگا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں فلاں لشكر ميں جا رہا ہوں اور ميرى بيوى حج كرنا چاہتى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم بيوى كے ساتھ جاؤ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1763 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1341)

دوسرى:

شارع نے رخصت دى ہے كہ جس كے ساتھ عورتيں ہو وہ مزدلفہ سے رات كو ہى منى چلا جائے.

اسماء رضى اللہ تعالى عنہا كے غلام عبد اللہ اسماء رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كرتے ہيں كہ اسماء مزدلفہ كى رات مزدلفہ ميں ٹھريں اور دعا كرنے لگيں اور كچھ دير تك دعا كى پھر كہنے لگيں: بيٹے كيا چاند غروب ہو گيا ہے؟ تو ميں نے عرض كيا نہيں، تو وہ پھر دعا ميں مشغول ہو گئيں، پھر كہنے لگيں: كيا چاند غائب ہو گيا ہے ؟ تو ميں عرض كيا جى ہاں تو وہ كہنے لگيں:

چلو كوچ كر جاؤ تو ہم نے وہاں سے كوچ كر ليا، اور جا كر جمرہ عقبہ كو كنكرياں ماريں، پھر وہ واپس آئيں اور فجر كى نماز اپنے پڑاؤ والى جگہ ميں ادا كى، تو ميں نے انہيں كہا: ميرا خيال ہے كہ ہم تو اندھيرے ميں نكل آئے تو وہ كہنے لگيں: ميرے بيٹے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورت كو اجازت دى ہے ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1595 ).

اس حديث پر امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے مندرجہ ذيل باب باندھا ہے:

” باب من قدم ضعفۃ اھلہ بليل فيقفون بالمزدلفۃ و يدعون و يقدم اذا غاب القمر”

رات كو اپنے كمزور اور ضعيف گھر والوں كو آگے بھيج دينا اور مزدلفہ ميں ان كا وقوف اور دعا كرنا اور جب چاند غائب ہو جائے تو وہاں سے آگے بھيج دينےكا بيان ”

يا ھنتاہ كا معنى ہے آپ نے.

اور الظعن: يہ ظعينۃ كى جمع ہے اس كا معنى عورت ہے.

تيسري:

طواف ميں بيت اللہ سے دور رہنا مستحب ہے، تا كہ مردوں سےاختلاط نہ ہو، اگرچہ دور رہنے ميں حجر اسود كا استلام نہيں ہوتا.

عطاء رحمہ اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں نے مردوں كے ساتھ طواف كيا، تو ان سے عرض كيا گيا: وہ مردوں كے ساتھ كيسے مل جاتى ؟

تو انہوں نے جواب ديا: وہ مردوں سے اختلاط نہيں كرتى تھيں، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا مردوں سے دور رہ كر طواف كرتى تھيں، اور ان كے ساتھ نہيں ملتى تھيں، تو ايك عورت كہنے لگى: اے ام المؤمنين چليں چل كر حجر اسود كا استلام كريں، تو انہوں نے جواب ديا: چھوڑ دو، اور انہوں نے انكار كر ديا ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1539 ).

حجرۃ من الرجال: مردوں سے دور.

اور ابن جماعۃ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

” سب سے برى اور منكر چيز يہ ہے جو جاہل عوام طواف ميں كرتے ہيں كہ اپنى بے پرد بيويوں كو مردوں كے ساتھ رش ميں طواف كرواتے ہيں، اور بعض اوقات تو يہ رات كو ہوتا ہے اور ہاتھ ميں انہوں نے جلتى ہوئى شمعيں تھام ركھى ہوتى ہيں… ”

حتى كہ ان كا كہنا ہے:

” اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ حكمرانوں كو برائى اور منكرات ختم كرنے كى توفيق عطا فرمائے ”

ابن حجر ھيتمى رحمہ اللہ تعالى نے ان كى كلام نقل كرنے كے بعد كہا ہے:

” آپ ذر غور اور تامل سے كام ليں تو آپ كو اسے واضح اور صريح پائيں گے كہ عورتوں كے فتنہ كے اسباب كے مرتكب ہونے كے وقت انہيں طواف سے منع كرنا واجب ہے ”

ديكھيں: الفتاوى الفقھيۃ ( 1 / 201 – 202 ).

تيسرى:

اور اگر عورت عمرہ كرنا چاہے تو اس پر محرم كے ساتھ سفر كرنا واجب ہے، حتى كہ اس كى عزت و نفس كى حفاظت ہو سكے، اور اسے چاہيے كہ وہ ايسا وقت اختيار كرے جس ميں حرم كے اندر رش اور بھيڑ نہ كم ہو، ليكن رش اور بھيڑ كے موسم مثلا رمضان المبارك ميں بہتر يہ ہے كہ وہ عمرہ كرنے سے گريز كرے، كيونكہ اس وقت عمرہ كرنے سے مردوں كے ساتھ اختلاط ہو گا، اور ان سے بچنا ممكن نہيں.

سوال نمبر (36514 ) كے جواب ميں ہم نے شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كى كلام نقل كى ہے كہ:

” اس وقت رش اور ازدحام كے وقت ميں عورت كے ليے افضل اور بہتر يہى ہے كہ وہ بار بار حج مت كرے، كيونكہ يہ اس كے دين كے ليے زيادہ سليم اور بہتر ہے”

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android