ايسے شخص كا حكم كيا ہے جو يہ دريافت كرے كہ افطارى كا وقت كب ہے ؟
اگر كوئى شخص ” افطارى كا وقت كب ہے ” دريافت كرے تواس كا حكم كيا ہو گا ؟
سوال: 66827
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
افطارى كا وقت روزہ ختم ہونے كا وقت ہے جو كہ نماز مغرب كا وقت ہے، افطارى كا وقت دريافت كرنے ميں كوئى حرج نہيں تا كہ اللہ تعالى كى نعمتيں كھانا پينا، اور جماع وغيرہ سے سرور حاصل كيا جا سكے، اور اللہ كى عبادت كو مكمل كرے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” روزے دار كے ليے دو خوشياں حاصل ہوتى ہيں، جب روزہ افطار كرتا ہے تو افطارى سے خوشى حاصل كرتا ہے، اور جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو روزہ كى بنا پر خوشى اور سرور حاصل كرے گا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1805 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1151 ).
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قرطبى كا قول ہے: اس كا معنى يہ ہے كہ: اسے اپنى بھوك اور پياس ختم ہونے كى خوشى ہے، كيونكہ اس كے ليے روزہ كھولنا مباح كر ديا گيا ہے، اور يہ خوشى طبعى ہے، جو سمجھ ميں بہت جلد آتى ہے.
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: اسے افطارى كے وقت خوشى حاصل اس ليے ہوتى ہے كہ اس نے روزہ مكمل كر ليا، اور اپنى عبادت مكمل كر لى، اور اپنے رب كى تخفيف پر اسے خوشى حاصل ہوتى ہے، اور آئندہ مستقبل ميں روزے كے ليے ممد و معاون ہے.
ميں كہتا ہوں:
جو كچھ بھى بيان ہوا ہے اس سے بھى عام پر محمول كرنے ميں كوئى مانع نہيں، چنانچہ ہر شخص اپنے حساب كے مطابق خوشى حاصل كرتا ہے، كيونكہ اس ميں لوگ كا مقام مختلف ہے، بعض افراد كى خوشى مباح ہے جو كہ طبعى ہے، اور بعض كى مستحب، وہ يہ خوشى جس كا سبب مندرجہ بالا مذكورہ اشياء ہيں ” انتہى.
ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 118 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب