فرمان بارى تعالى ہے:
ايك مسكين كا كھانا ہے .
كيا اس مسكين ميں بلوغت اور مكلف ہونے كى شرط ہے ؟
اور كيا اگر كوئى شخص تيس مسكينوں كو كھانا كھلائے تو كيا ان ميں مساكين كى اولاد اور اس كى كفالت ميں رہنے والے افراد شامل ہونگے ؟
اور كيا غلہ كے بدلے ميں رقم كى ادائيگى كافى ہو گى، اور اس غلہ كى مقدار كيا ہے ؟
روزوں كے فديہ ميں غلہ كس مسكين كو ديا جائيگا، اور اس مقدار كتنى ہے، اور وہ كيا چيز دى جائيگى ؟
سوال: 66886
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
رمضان المبارك ميں روزے ركھنے كى استطاعت ركھنے والے شخص كے ليے روزہ نہ ركھنا جائز نہيں، ليكن اگر كوئى شرعى عذر ہو تو روزہ نہيں ركھا جا سكتا، اور پھر شرعى عذر كى بنا پر روزہ نہ ركھنے والے ہر شخص كے ليے بطور فديہ ہر دن كے بدلے مسكين كو غلہ دينا بھى جائز نہيں، بلكہ يہ تو صرف اس كے ليے جائز ہے، جو بہت زيادہ ضعيف اور بوڑھا ہو، يا پھر دائمى مريض جسے شفايابى كى اميد ہى نہ ہو.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور وہ لوگ جو اس كى طاقت ركھنے ہيں ايك مسكين كا كھانا فديہ ديں البقرۃ ( 184 ).
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" يہ بوڑھے مرد اور عورت كے ليے ہے جو روزہ ركھنے كى استطاعت نہ ركھتے ہوں، تو وہ ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا ديں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4505 ).
اور جو مريض شفايابى كى اميد نہ ركھتا ہو وہ بھى بوڑھے اور ضعيف شخص كے حكم ميں آتا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور وہ مريض جس كے شفاياب ہونے كى اميد نہ ہو وہ روزہ نہ ركھے بلكہ اسكے بدلے ہر دن ايك مسكين كو كھانا كھلائے؛ كيونكہ وہ بوڑھے اور ضعيف شخص كے معنى ميں ہے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 4 / 396 ).
دوم:
اس مسكين كے ليے شرط نہيں كہ وہ بالغ ہى ہو، بلكہ علماء كرام كا اتفاق ہے كہ چھوٹا بچہ جو كھانا كھاتا ہے اسے بھى فديہ ديا جا سكتا ہے، صرف علماء كرام كا اختلاف دودھ پيتے بچے كے متعلق ہے كہ آيا اسے فديہ كا غلہ ديا جا سكتا ہے يا نہيں ؟
چنانچہ جمہور علماء كرام ( جن ميں ابو حنيفہ، شافعى، اور احمد رحمہم اللہ شامل ہيں ) اسے جواز قرار ديتے ہيں، كيونكہ يہ مسكين ہے، چنانچہ يہ آيت كے عموم ميں داخل ہوگا.
اور امام مالك رحمہ اللہ كے كلام سےظاہر يہ ہوتا ہے كہ: دودھ پيتے بچے كو فديہ كا كھانا نہيں ديا جاسكتا، وہ كہتے ہيں: جو بچہ دودھ چھوڑ چكا ہو اسے غلہ دينا جائز ہے، اور موفق ابن قدامہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے.
ديكھيں: المغنى ( 13 / 508 ) الانصاف ( 23 / 342 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 35 / 101- 105 ).
سوم:
مسكين كى اولاد اور اس كى بيوى اور اہل و عيال جن كا خرچ اس مسكين كے ذمہ واجب ہے يہ سب اس تعداد ميں شامل ہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر وہ اپنے ليے كفائت نہ پائيں، اور اس مسكين كے علاوہ ان پر كوئى اور خرچ كرنے والا بھى نہ ہو.
اس ليے اس مسكين كو زكاۃ كا اتنا مال ديا جائيگا جو اس اوراس كے اہل و عيال كے ليے كافى ہو.
الروض المربع كے مصنف كہتے ہيں:
" دو قسم كے افراد ـ يعنى فقراء اور مساكين ـ كو ان كى تمام كفائت والى اشياء دى جائينگى، اور ان كے اہل و عيال بھى ان ميں ہى شامل ہيں " انتہى.
ديكھيں: الروض المربع ( 3 / 311 ).
چہارم:
اور رہا يہ مسئلہ كہ كيا ادا كيا جائے اور اس كى مقدار كيا ہے ؟
تو مسكين كو نصف صاع يعنى تقريبا ڈيڑھ كلو علاقے ميں جو غلہ اور غذا استعمال ہوتى ہے وہ دى جائيگى، چاہے وہ چاول ہوں، يا گندم، يا پھر كھجور، يا كوئى اور چيز، اور اگر اس كے ساتھ سالن كے ليے گوشت بھى ديا جائے تو يہ بہتر ہے.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے صيغہ جزم كے ساتھ تعليقا روايت كيا ہے كہ:
انس رضى اللہ تعالى عنہ جب بوڑھے ہوگئے اور روزہ نہ ركھ سكتے تھے تو روزہ نہ ركھتے بلكہ ہر دن كے بدلے مسكين كو روٹى اور گوشت ديتے.
غلہ اور كھانے كى قيمت ادا كرنى جائز نہيں.
شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" كھانا نقدى كى شكل ميں نہيں ديا جا سكتا، جيسا كہ ميں بيان كر چكا ہوں، بلكہ وہ غلہ اور كھانا ديا جائيگا جو علاقے كى غذا ہو؛ اس طرح كہ ہر دن كے بدلے نصف صاع علاقے ميں كھائى جانى غذا ايك مسكين كو دى جائيگى، جو تقريبا ڈيڑھ كلو بنتى ہے.
اس ليے آپ اس مقدار كے حساب سے علاقے ميں كھائى جانے والى غذا ہر دن كے بدلے ميں ديں، اور اس كے بدلے نقدى كى صورت ميں روپے ادا نہ كريں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور ان لوگوں پر جو اس كى استطاعت ركھتے ہيں ايك مسكين كا كھانا فديہ ہے البقرۃ ( 184 ).
يہ غلہ اور كھانا كى ادائيگى پر نص ہے. انتہى.
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان ( 3 / 140 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 39234 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات