رمضان المبارك ميں ميرے رحم كا آپريشن كيا گيا، اس كا اسقاط حمل يا ولادت كے ساتھ كوئى تعلق نہيں تھا، اور آپريش كے بعد كچھ روز تك خون آتا رہا، اور ڈاكٹر نے مجھے كہا كہ ميں روزہ ركھ سكتى ہوں، اور ميں نے روزہ بھى ركھا، تو ميرے اس روزے كا حكم كيا ہے ؟
رمضان المبارك ميں آپريشن ہوا اور كچھ روزہ تك خون جارى رہا
سوال: 67777
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
عورت كے رحم سے نكلنے والا خون يا تو حيض اور يا پھر نفاس كا ہوتا ہے، بالاجماع اس حالت ميں روزہ ركھنا صحيح نہيں ہے، اس كى دليل بخارى شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا جب اسے ـ يعنى عورت كو ـ جب حيض آتا ہے تو وہ نہ تو نماز ادا كرتى ہے، اور نہ روزہ ركھتى ہے ؟ "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1951 ).
اور يا پھر وہ خون حيض يا نفاس كا نہيں ہوتا، مثلا رحم سے خون جارى ہونا يا پھر آپريش وغيرہ كى بنا پر تو يہ نماز اور روزہ كے ليے مانع نہيں، بلكہ عورت پاك ہے اور پاك صاف عورتوں كے اعمال ہى كرے گى، ليكن يہ ہے كہ وہ ہر نماز كے ليے نماز كا وقت شروع ہونے كے بعد تازہ وضوء كرے گى.
تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 39494 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور اسى ليے جب ايك استحاضہ والى عورت نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: ميں پاك نہيں ہوتى، تو كيا ميں نماز چھوڑ دوں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ تو ايك رگ ہے اور حيض نہيں، جب تجھے حيض آئے تو نماز چھوڑ دو، اور جب حيض ختم ہو جائے تو اپنے سے خون دھو كر نماز ادا كرو"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 306 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 333 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے ايسى عورت كے متعلق دريافت كيا گيا جس كا اپريش ہوا اور اپريش كے بعد اور ماہوارى سے چار يا پانچ روز قبل سياہ خون ديكھا جو كہ ماہوارى كے خون كے علاوہ تھا، اور اس كے بعد فورا سات يوم تك ماہوارى كا خون آتا رہا، تو كيا ماہوارى سے قبل آنے والا خون بھى ماہوارى ميں شمار ہو گا ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" اس كے متعلق ڈاكٹروں سے رجوع كيا جائےگا، كيونكہ ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ اس عورت كو جو خون آيا ہے وہ اپريشن كے نتيجہ ميں تھا، اور اپريشن كے نتيجہ ميں آنے والا خون حيض كے حكم ميں نہيں آتا؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا استحاضہ والى عورت كے بارہ ميں فرمان ہے:
" يہ رگ كا خون ہے "
اور اس ميں يہ اشارہ ہے كہ اگر نكلنے والا خون رگ كا خون ہوـ اور اپريشن كا خون بھى اس ميں شامل ہوتا ہے ـ تو يہ خون حيض شمار نہيں ہو گا، لہذا حيض كى بنا پر حرام ہونے والى اشياء اس خون سے حرام نہيں ہونگى اور اس ميں نماز ادا كرنا واجب ہے، اور اگر رمضان كے دن ميں ہو تو روزہ ركھنا ہو گا" انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 277 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
روزے كى حالت ميں خون جارى ہونے والے كا حكم كيا ہے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
" جب كسى شخص كے اس كے اختيار كے بغير خون جارى ہو جائے اور وہ روزہ كى حالت ميں ہو تو اس كا روزہ صحيح ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 268 ).
اس بنا پر ان شاء اللہ آپ كا روزہ صحيح ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ سب مسلمان مريضوں كو شفايابى نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات