ميرا سوال بھى سوال نمبر ( 11137 ) كے مشابہ جس ميں ايڈز كے مرض كے شكار شخص سے شادى كرنے كا حكم دريافت كيا گيا ہے، ميرى حالت بھى تقريبا اسى كے مشابہ ہے ميں ايك ايسى عورت سے شادى كرنا چاہتا ہوں ڈاكٹروں كى تشخيص كے مطابق اسے ايڈز كى بيمارى لاحق ہے، اور يہ وائرس بہت ہى كم ہے حتى كہ اس كا منكشف ہونا ممكن نہيں.
مذكورہ عورت نے پہلے بھى شادى كى تھى اس كا ايك چار سالہ بچہ بھى ہے، ان دونوں كو يہ وائرس منتقل نہيں ہوا، مجھے علم ہوا ہے كہ كچھ علماء كرام ايسى شادى كو حرام كہتے ہيں، اور كچھ اس كى اجازت ديتے ہيں، آپ نے اس سوال كا جواب ديتے ہوئے اسے طرفين كے علم سے مشروط كيا ہے، ليكن ميرے درج ذيل سوالات ہيں:
اول:
اگر اس كے تعلقات ميں بچاؤ اختيار كيا جائے تو كيا اس كے شادى كرنا جائز ہے ؟
دوم:
اگر دونوں جماع اور وطئ نہ كرنے پر متفق ہوں تو كيا ايسى عورت كے ليے شادى كرنا جائز ہے ؟
سوم:
كيا اس عورت كے ليے كسى ايسے شخص سے شادى كرنا جائز ہے جو اللہ كو راضى كرنے كے ليے اس عورت كى خواہش پورى كرنا چاہتا ہو ؟
ايڈز كا مريض شخص ايڈز كى مريضہ عورت سے شادى كر سكتا ہے
سوال: 69742
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سوال نمبر ( 11137 ) كے جواب ميں ايڈز كے مريض سے شادى كرنے كا حكم بيان كيا جا چكا ہے، وہاں ہم يہ كہہ چكے ہيں كہ:
” شادى اسى صورت ميں كى جائيگى جب اپنى حالت كو بيان كر ديا جائے كہ مجھے فلاں فلاں مرض لاحق ہے، اگر وہ اس پر راضى ہو جائيں تو ٹھيك ہے وگرنہ شادى نہيں كر سكتا؛ كيونكہ جب وہ اپنى حالت كو چھپائےگا تو يہ انہيں دھوكہ دينے كے مترادف ہے، اور فراڈ كر رہا ہے.
كيونكہ ہو سكتا ہے اس عورت كى بيمارى اس كے خاوند كو لگ جائے، يا پھر خاوند كى بيمارى بيوى ميں منتقل ہو جائے، اور اسى طرح ان كے بعد انكى اولاد كو بھى لگ سكتى ہے ليكن اگر وہ آپ كے ساتھ شادى كرنے پر راضى ہو اور اللہ كى تقدير پر راضى ہوتے ہوئے شادى كر لے تو اس ميں كوئى حرج نہيں ”
سائل كے ليے كسى تندرست يا مريض عورت سے شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ سائل شادى سے قبل اسے اپنى بيمارى كے بارہ ميں واضح طور پر بتا دے، اور اگر عورت اور اس كے گھر والے شادى پر موافق ہو جائيں اور آپ دونوں مباشرت كى رغبت ركھتے ہوں تو بيمارى سے بچاؤ كے ليے آپ كنڈوم استعمال كر سكتے ہيں.
ملك سعود يونيورسٹى ميں شعبہ متعدى امراض كے چئير مين اور مشير ڈاكٹر عبد اللہ الحقيل كا كہنا ہے:
” ايڈز كى بيمارى كے شكار شخص كى شادى ميں بہت مشكلات ہيں؛ كيونكہ يہ بيمارى دوسروں ميں منتقل ہونے كا رئيسى سبب جنسى تعلقات قائم كرنا ہے، اور اس بيمارى كا شكار خاوند يا بيوى جنسى تعلقات قائم كرتے وقت كنڈوم استعمال كرے تو بيمارى كے عدم انتقال سے بہت زيادہ بچاؤ ہو سكتا ہے.
ليكن دوسرے فريق چاہے وہ مرد ہو يا عورت كو اس كا مكمل عمل ہونا چاہيے كہ جس چيز كا وہ مستقبل ميں منتظر ہے اس كے ليے مشكلات ہونگى ”
ماخوذ از: جريدۃ الوطن عدد نمبر ( 522 ) سال دوم بروز منگل 21 ذوالحجہ 1422ھ الموافق 5 مارچ 2002 ميلادى.
ازدواجى زندگى صرف مباشرت و جماع كا نام نہيں، اس ليے اگر آپ دونوں جماع نہ كرنے پر متفق ہوں تو آپ اس عورت سے شادى كر سكتے ہيں، كيونكہ مرد كو عورت يا عورت كو مرد كى صرف جنسى ضرورت نہيں ہوتى، بلكہ اس كے علاوہ بھى بہت سارے امور ہوتے ہيں جس كى بنا پر مرد و عورت آپس ميں شادى كرتے ہيں، مثلا ديكھ بھال اور حفاظت اور نان و نفقہ اور انس و محبت اور اطاعت و فرمانبردارى پر ايك دوسرے كى معاونت.
بلكہ طرفين ميں سے كسى ايك كى محبت دوسرے كو شادى كرنے پر آمادہ كرتى ہے، اور اسى طرح اس چھوٹى لڑكى كى شادى جو جماع كى متحمل نہيں ا سكا نكاح بھى شرعى ہو چاہے ان ميں جماع نہ بھى ہو.
اس بنا پر آپ دونوں كى شادى اور جماع نہ كرنے ميں متفق ہونے پر كوئى حرج نہيں.
جمہور علماء كرام كے ہاں تو عقل و دانش والے شخص كا مرض الموت ميں شادى كرنا صحيح ہے، اس حالت ميں اسے جماع كى كيا ضرورت ہے جس كى بنا پر وہ شادى كريگا بلكہ وہ تو اپنى ديكھ بھال كے ليے شادى كر رہا ہے ؟!
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك مريض نے بيمارى كى حالت ميں شادى كر لى تو كيا يہ عقد نكاح صحيح ہو گا ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
” مريض كا نكاح صحيح ہے، جمہور علماء كرام صحابہ كرام اور تابعين عظام كے قول كے مطابق عورت وارث ہوگى اور بالاتفاق مہر مثل كى مستحق ہوگى، اس سے زيادہ كى نہيں ” انتہى
ديكھيں الفتاوى الكبرى ( 3 / 99 ).
اور شيخ الاسلام كا يہ بھى كہنا ہے:
” ” مريض كا نكاح صحيح ہے، جمہور علماء كرام صحابہ كرام اور تابعين عظام كے قول كے مطابق عورت وارث ہوگى اور بالاتفاق مہر مثل كى مستحق ہوگى، اس سے زيادہ كى نہيں ” انتہى
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 5 / 466 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات