ميں نے سوال نمبر ( 21870 ) كے جواب ميں پڑھا ہے كہ: ( اگر كوئى مسلمان شخص قريب المرگ ہو تو قريب بيٹھا ہوئے شخص كے ليے اس پر سورۃ يس كى تلاوت كرنى مشروع ہے، كيونكہ اس سے روح نكلنے ميں آسانى پيدا ہو جاتى ہے، كيا اس كى كوئى دليل بھى ہے ) ؟
قريب المرگ شخص كے پاس سورۃ يس كى تلاوت كرنا
سوال: 72201
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جمہور علماء كرام ( جن ميں احناف، شافعيہ، اور حنابلہ شامل ہيں ) كا مسلك ہے كہ قريب المرگ شخص كے پاس سورۃ يس كى تلاوت كرنى مستحب ہے، انہوں نے بعض دلائل سے استدلال كيا ہے، ليكن يہ سب دلائل ضعيف ہيں:
مسند احمد اور ابو داود ميں معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنى اموات پر يس پڑھا كرو "
مسند احمد حديث نمبر ( 19789 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3121 ).
يہ حديث ضعيف ہے، اسے امام نووى رحمہ اللہ نے " الاذكار" ميں ضعيف قرار ديا ہے.
اور " التلخيص " ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ابن قطان نے اس كى علت اضطراب اور موقوف اور ابو عثمان اور اس كے باپ كے مجھول ہونا بيان كيا ہے، اور ابن العربى نے دار قطنى سے نقل كيا ہے كہ اس حديث كى سند ضعيف اور متن مجھول ہے، اور اس باب ميں كوئى بھى حديث صحيح نہيں " انتہى.
ديكھيں: التلخيص ( 2 / 104 ).
اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى اسے ارواء الغليل ميں ضعيف قرار ديا ہے.
ديكھيں: ارواء الغليل ( 688 ).
اور امام احمد نے صفوان رحمہ اللہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں مجھے مشائخ نے بيان كيا كہ وہ غضيف بن الحارث الثمالى ( جو كہ صحابى ہيں ) كى موت كے وقت ان كے پاس حاضر ہوئے تو وہ كہنے لگے: كيا تم ميں سے كوئى يس كى تلاوت كرتا ہے ؟
تو صالح بن شريح السكونى نے سورۃ يس كى تلاوت شروع كى اور جب وہ چاليس آيت كى تلاوت كر چكے تو ان كى روح قبض ہوگئى، راوى كہتے ہيں: تو مشائخ كہا كرتے تھے: جب ميت كے پاس سورۃ يس كى تلاوت كى جائے تو اس كى بنا پر اس سے تخفيف ہو جاتى ہے.
صفوان رحمہ اللہ كہتے ہيں: اور عيسى بن معتز نے ابن معبد كے پاس سورۃ يس كى تلاوت كى تھى "
مسند احمد ( 4 / 105 ) حديث نمبر ( 16521 ).
اور " الاصابۃ " ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس كى سند حسن ہے.
ديكھيں: الاصابۃ ( 5 / 324 ).
اور مزيد تفصيل كے ليے آپ المجموع للنووى ( 5 / 105 ) اور شرح المنتھى الارادات ( 1 / 341 ) اور حاشيۃ ابن عابدين ( 2 / 191 ) كا بھى مطالعہ كريں.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے:
" اور موت كے بعد ميت پر قرآن مجيد كى تلاوت بدعت ہے، بخلاف قريب الموت شخص كے، كيونكہ قريب المرگ شخص پر سورۃ يس كى تلاوت كرنا مستحب ہے " انتہى.
ديكھيں: الاختيارات صفحہ نمبر ( 91 ).
علماء كا كہنا ہے كہ اس كے مستحب ہونے كا سبب يہ ہے كہ:
يہ سورۃ توحيد اور روز قيامت دوبارہ اٹھنے اور توحيد پر مرنے والے شخص كے ليے جنت كى خوشخبرى پر مشتمل ہے، جو كہ درج ذيل آيت ميں بيان كى گئى ہے:
كاش ميرى قوم كو بھى علم ہو جاتا كہ ميرے رب نے مجھے بخش ديا ہے .
تو اس سے روح خوش ہو جاتى ہے اور اس كا نكلنا آسان ہو جاتا ہے.
ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 1 / 837 ).
اور امام مالك رحمہ اللہ نے قريب المرگ شخص كے پاس سورۃ يس يا كوئى اور سورۃ تلاوت كرنا مكروہ كہا ہے، كيونكہ اس سلسلے ميں جو احاديث وارد ہيں وہ ضعيف ہيں، اور اس ليے بھى كہ يہ ( مدينہ كے ) لوگوں كا عمل نہيں ہے.
ديكھيں: الفواكہ الدوانى ( 1 / 284 ) شرح مختصر خليل ( 2 / 137)
اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى " احكام الجنائز " ميں كہتے ہيں:
" اور رہا مسئلہ اس ( يعنى قريب المرگ شخص ) كے پاس سورۃ يس كى قرآت كا، اور اس كا رخ قبلہ كى جانب كرنے كا تو اس ميں كوئى بھى صحيح حديث نہيں ملتى " انتہى.
اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے سوال كيا گيا:
كيا قريب المرگ شخص كے پاس سورۃ ( يس ) كى تلاوت كرنا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" قريب المرگ شخص كے پاس سورۃ ( يس ) كى تلاوت كرنے كے متعلق معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث آئى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنے مرنے والوں پر سورۃ يس كى تلاوت كيا كرو "
كچھ لوگوں نے اسے صحيح قرار ديا اور خيال كيا ہے اس كى سند جيد ہے، اور ابو عثمان نھدى عن معقل بن يسار كى روايت ميں سے ہے، اور بعض دوسرے لوگوں نے اس حديث كو ضعيف قرار ديا ہے، ان كا كہنا ہے كہ راوى ابو عثمان نھدى نہيں بلكہ كوئى اور مجھول شخص ہے.
چنانچہ اس سلسلے ميں معروف حديث ابو عثمان كى جھالت كى بنا پر ضعيف ہے، اس ليے مرنے والوں پر سورۃ يس كى تلاوت كرنا مستحب نہيں، اور جو شخص اسے مستحب كہتا ہے اس نے حديث صحيح ہونے كے خيال سے اسے مستحب قرار ديا ہے.
ليكن مريض كے پاس قرآن مجيد پڑھنا ايك اچھى چيز ہے، ہو سكتا ہے اللہ تعالى اس سے مريض كو فائدہ دے، ليكن سورۃ يس كى تخصيص كر لينا يہ صحيح نہيں، اس ميں وارد شدہ حديث ضعيف ہے، لہذا سورۃ يس كى تخصيص كرنے كى كوئى وجہ نہيں " انتہى.
ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 13 / 93 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
كيا قريب المرگ كے پاس سورۃ ( يس ) كى تلاوت كرنا سنت سے ثابت ہے يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" قريب المرگ شخص كے پاس سورۃ ( يس ) كى تلاوت بہت سے علماء كرام كے ہاں سنت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اپنے مرنے والوں پر يس كى تلاوت كيا كرو "
ليكن يہ حديث صحيح نہيں، بعض علماء نے اس ميں كلام كى اور اسے ضعيف قرار ديا ہے، تو جس نے اس حديث كو صحيح كہا ہے اس كے ہاں سورۃ يس كى تلاوت سنت ہے، اور جس نے اس حديث كو ضعيف قرار ديا ہے اس كے نزديك سنت نہيں, واللہ اعلم " انتہى.
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 17 / 72 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" اپنے مرنے والوں پر يس كى تلاوت كرو "
يہ حديث ضعيف ہے، اس ميں كچھ ضعف پايا جاتا ہے، اور اگر حديث صحيح ہو تو پھر سورۃ يس تلاوت كرنے كى جگہ اور وقت وہ ہے جب ميت حالت نزع ميں ہو، تو اس پر سورۃ يس كى تلاوت كى جائے، اہل علم كا كہنا ہے:
اس ميں فائدہ يہ ہے كہ روح آسانى سے نكل جاتى ہے، كيونكہ اس سورۃ ميں يہ آيت اور فرمان بارى تعالى ہے:
كہا گيا تو جنت ميں داخل ہو جا، اس نے كہا كاش ميرى قوم كو بھے يہ علم ہو جاتا كہ ميرے رب نے مجھے بخش ديا ہے، اور مجھے باعزت لوگوں ميں سے كر ديا ہے .
تو اگر يہ حديث صحيح ہو تو قريب المرگ شخص كے پاس سورۃ يس پڑھے، ليكن قبر پر پڑھنے كى تو كوئى اصل نہيں ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 17 / 74 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب