0 / 0

موت سے قبل اولاد ميں مال تقسيم كرنا اور بعض كو نہ دينا

سوال: 72793

ميرے والد نے اپنى ملكيت ميں جو كچھ تھا وہ تقسيم كر ديا اور جس گھر ميں ہمارى پرورش ہوئى تھى وہ تين بھائيوں كى ملكيت ميں دے ديا، ليكن اپنى اولاد ميں سے كچھ كو نہ ديا يعنى دو بہنوں، اور مجھے اور ميرے ايك بھائى كو كچھ نہيں ديا.

اللہ تعالى ميرے بھائيوں كے مال ميں اور بركت كرے ان كى مالى حالت بہت اچھى ہے، ميں اور ميرا بھائى ہم اپنے ملك سے باہر ملازمت كرتے ہيں، اور ميرى بہنيں شادى شدہ ہيں، جب يہ تقسيم ہوئى تو ہم ملك سے باہر ہى تھے، اب تك ہم نے اپنے والد كو ناراض نہيں كيا اس كى دليل يہ ہے كہ وہ ہمارے ليے دعا كرتے ہيں، اور ہم سے يقينى درگزر كرتے ہيں، كيا ميرے والد كے ليے جائز ہے كہ وہ اولاد ميں اس طرح كسى ايك كو دے اور دوسرے كو محروم ركھے ؟

آپ ہميں كيا نصيحت كرتے ہيں كہ ہميں اپنے والد كو اس سلسلے ميں كيا كہنا اور كس طرح بات كرنى چاہيے، كيونكہ ہم نے سنا ہے كہ يہ عمل شريعت اسلاميہ كے منافى ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

آپ كے والد كا يہ عمل كہ اولاد ميں سے بعض كو دينا اور كچھ كو نہيں ديا، يہ ان كا اپنى زندگى ميں اپنے ورثاء كے درميان مال تقسيم كرنا نہيں ہے، كيونكہ انہوں نے اپنے سب ورثاء كو نہيں ديا، بلكہ اس ميں سے كچھ اولاد كو مخصوص كر ليا ہے.

اور بغير كسى سبب كے اولاد ميں سے كسى ايك بيٹے يا بيٹى كو عطيہ دينے كى تخصيص كرنا حرام ہے.

اس طرح كے مسئلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى گواہى دينا بھى مناسب نہيں سمجھا بلكہ گواہى دينے سے رك گئے، اور اسے ظلم و جور قرار ديا.

صحيح بخارى اور مسلم ميں نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث مروى ہے كہ:

نعمان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميرے والد مجھے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لے كر گئے اور عرض كيا:

” ميں نے اپنے اس بيٹے كو غلام بطور عطيہ ديا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” كيا تو نے اپنے سب بيٹوں كو اس طرح ہى غلام عطيہ كيا ہے ؟

تو ميرے والد نے عرض كيا: نہيں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

” اس سے واپس لے لو ”

اور نحلت ابنى غلاما كا معنى يہ ہے كہ ميں نے اسے غلام عطيہ كيا ہے.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2586 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1623 ).

اور بخارى شريف كى ايك اور روايت ميں ہے كہ:

عامر رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہ كو منبر پر بيان كرتے ہوئے سنا وہ كہہ رہے تھے:

ميرے والد نے مجھے كوئى عطيہ ديا تو عمرہ بنت رواحہ رضى اللہ تعالى عنہا ( ان كى والدہ ) كہنے لگيں: ميں اس وقت تك راضى نہيں جب تك اس پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو گواہ نہ بناؤ، تو وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور عرض كيا:

” ميں نے عمرۃ بنت رواحۃ كے بطن سے پيدا ہونے والے اپنے بيٹے كو عطيہ ديا ہے، تو وہ مجھے كہنے لگى كہ ميں آپ كو اس پر گواہ بناؤں، اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ كو گواہ بناتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

كيا تو نے اپنے سب بچوں كو اسى طرح عطيہ ديا ہے ؟

تو وہ كہنے لگے: نہيں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” تم اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈر، اور اپنى اولاد كے درميان عدل و انصاف كرو ”

وہ كہتے ہيں: تو ان كا عطيہ بھى انہوں نے واپس لے ليا ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2587 ).

اور بخارى شريف كى ايك روايت كے الفاظ ہيں:

” مجھے ظلم پر گواہ مت بناؤ ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2650 ).

اور مسلم كى روايت ميں نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں كہ:

” مجھے اٹھا كر ميرے والد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لے گئے اور كہنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ گواہ رہيں ميں نے نعمان كو اپنے مال ميں سے اتنا اتنا ديا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

” كيا تم نے اپنے سارے بيٹوں كو نعمان كى طرح عطيہ ديا ہے ؟ ”

تو وہ كہنے لگے: نہيں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اس پر ميرے علاوہ كسى اور كو گواہ بناؤ ”

پھر فرمانے لگے: ” كيا تمہيں يہ پسند ہے كہ وہ تيرے ساتھ حسن سلوك كرنے ميں سب برابر ہوں ؟ ”

تو وہ كہنے لگے: كيوں نہيں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تو پھر نہيں ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1623 ).

دوم:

جس شخص سے بھى اس طرح كا ظلم ہوا ہے وہ اللہ تعالى كے سامنے اس سے توبہ كرے، اور اس عطيہ كو واپس لے، يا پھر اپنى سارى اولاد كو اسى طرح عطيہ كرے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: اسے واپس لے لو ”

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” انسان كے ليے عطيہ دينے ميں اپنى اولاد كے درميان عدل كرنا چاہيے وہ كسى كو اس طرح خاص نہ كرے جس سے ايك كو زيادہ اور ايك كو كم دے، اور اگر كسى ايك كو عطيہ دينے ميں خاص كرے، يا كسى كو كم اور كسى كو زيادہ دے تو وہ گنہگار ہوگا، اور ان دونوں معاملوں ميں اسے برابرى كرنا واجب ہے؛ اس پر واجب ہے يا تو وہ زيادہ چيز واپس لے يا پھر جسے كم ديا ہے اسے بھى اور دے كر پورا كردے.

طاوس رحمہ اللہ كہتے ہيں: ايسا كرنا جائز نہيں، حتى كہ جلى ہوئى روٹى بھى زيادہ دينى جائز نہيں.

ابن مبارك رحمہ اللہ كا بھى يہى كہنا ہے، اور اسى معنى كى كلام مجاہد اور عروہ رحمہما اللہ سے بھى مروى ہے ” انتہى

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 5 / 387 ).

اور اگر وہ راضى ہو جائے جسے عطيہ نہيں ديا گيا، اور وہ اس پر دل سے رضامندى كا اظہار كريں تو پھر والد كے ليے اولاد ميں سے كسى ايك كو عطيہ دينے ميں خاص كرنے ميں كوئى حرج، كيونكہ ان كے بھائيوں كا حق تھا جسے وہ ساقط كرنے پر خود راضى ہو گئے ہيں، ليكن پھر بھى افضل اور بہتر يہى ہے كہ چاہے وہ اس پر راضى بھى ہوں پھر بھى ايسا نہ كرے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

” والد كے ليے اپنى اولاد چاہے وہ لڑكے ہوں يا لڑكياں ان ميں وراثت كے حساب سے عدل وانصاف كرنا واجب اور ضرورى ہے، اور اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى ايك كو كوئى چيز دينے كے ليے خاص كرے، اور دوسروں كو نہ دے، ليكن جنہيں محروم ركھا جا رہا ہے ان كى رضامندى سے ايسا كيا جا سكتا ہے، اور اس ميں بھى شرط يہ ہے كہ جب وہ عقل و رشد ركھتے ہوں، اور ان كى رضامندى اپنے والد كے ڈر سے نہ ہو، بلكہ وہ خود اپنے دل سے رضامندى كا اظہار كريں، اس ميں كسى بھى قسم كى كوئى دھمكى اور والد كا خوف شامل نہيں ہونا چاہيے.

اور اولاد ميں سے ہر حال كسى ايك كو زيادہ نہ دينا اور فضيلت نہ دينى بہتر ہے، اور ان كے دلوں كے ليے بھى خوش كن ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اس سے ڈر اور اپنى اولاد كے مابين عدل و انصاف سے كام لو ”

متفق عليہ . انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 20 / 51 ).

سوم:

سوال نمبر (36872 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے كہ:

( اگر كوئى سبب اس كا متقاضى ہو تو اولاد كو عطيہ دينے ميں كسى ايك كو زيادہ دينے ميں كوئى حرج نہيں، مثلا اس كے فقر كى ضرورت كے پيش نظر، يا وہ طالب وغيرہ ہو، اس ليے اگر تو والد كے پاس اس عطيہ كى تخصيص كا كوئى شرعى سبب ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر يہ بغير كسى شرعى سبب كے ہوا ہے، اور آپ اس پر راضى بھى نہيں تو پھر اس پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ اس عطيہ كو واپس لے كر ان كے مابين عدل و انصاف كرے.

چہارم:

اگر آپ لوگ اس پر راضى نہيں تو پھر آپ كو چاہيے كہ اپنے والد كو بڑے نرم اور ميٹھے انداز ميں نصيحت كريں، اور اس كے ليے يہ بيان كريں كہ اس پر تمہارے مابين عدل و انصاف كرنا واجب اور ضرورى ہے، اور ہو سكتا ہے آپ كو اس كے ليے شرعى دلائل كى بھى ضرورت پڑے.

اس كے متعلق شرعى دلائل سوال نمبر (67652 ) كے جواب ميں بيان كيے جا چكے ہيں، اس كا مطالعہ كر ليں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android