میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ میرے ان تین سوالوں کے جواب دیں:
1- "لا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم" اس کا معنی کیا ہے؟
2- اس کی تھوڑی سی تفصیل بیان کر دیں۔
3- یہ الفاظ ہم کس وقت کہا کریں؟
نِیا
نِیا
نِیا
سوال: 7747
میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ میرے ان تین سوالوں کے جواب دیں:
1- "لا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم" اس کا معنی کیا ہے؟
2- اس کی تھوڑی سی تفصیل بیان کر دیں۔
3- یہ الفاظ ہم کس وقت کہا کریں؟
ان الفاظ میں بندہ اپنی کامل ناتوانی کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی توفیق اور آسانی کے بغیر وہ کوئی کام نہیں کر سکتا، لہذا انسان کی ذاتی توانائی، قوت، طاقت اور ہمت جس قدر بھی زیادہ ہو لیکن اللہ تعالی کی توفیق شامل حال نہ ہو تو اسے کسی قسم کا فائدہ نہیں دے گی، اور اللہ تعالی کی ذات تمام مخلوقات سے اعلی و ارفع ہے، وہ اتنی عظیم ذات ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی چیز اس سے عظیم نہیں ہو سکتی؛ چنانچہ ہر طاقتور چیز بارگاہ الہی میں کمزور ہے، اللہ تعالی کی عظمت کے سامنے ہر عظیم چیز چھوٹی اور حقیر ہے۔
یہ جملہ اس وقت کہا جاتا ہے جب انسان پر طاقت سے بڑھ کر کوئی کام آن پڑے ، یا جس کام کو سر انجام دینا اس کے لیے مشکل ہو۔
الشیخ سعد الحمید
اسی طرح جس وقت مؤذن حی علی الصلاۃ یا حی علی الفلاح کہے تو یہ الفاظ جواب میں کہے جاتے ہیں۔
جیسے کہ حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا عمر بن خطاب سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس وقت مؤذن اللہ اکبر ، اللہ اکبر کہے تو تم میں سے بھی کوئی دل سے جواب دیتے ہوئے اللہ اکبر ، اللہ اکبر کہے، پھر جب مؤذن اشہد ان لا الہ اللہ کہے تو وہ بھی اشہد ان لا الہ اللہ کہے، پھر جب مؤذن اشہد ان محمدا رسول اللہ کہے تو وہ بھی اشہد ان محمدا رسول اللہ کہے۔ پھر جب مؤذن حی علی الصلاۃ کہے تو پھر لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے پھر جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو وہ پھر بھی لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے، پھر جب مؤذن اللہ اکبر ، اللہ اکبر کہے تو وہ بھی اللہ اکبر ، اللہ اکبر کہے، اور آخر میں مؤذن جب لا الہ الا اللہ کہے تو وہ بھی لا الہ الا اللہ کہے۔ تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔)
مسلم: (578)، سنن ابو داود: (443)
گھر سے نکلتے ہوئے یہ الفاظ پڑھے:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص بھی اپنے گھر سے نکلتے ہوئے کہے : بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ اللہ کے نام سے آغاز کرتے ہوئے اللہ تعالی پر بھروسا کرتا ہوں، نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ تعالی کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے) تو اسے کہا جاتا ہے: تمہیں اللہ کافی ہے اور تم بچا لیے گئے ہو، نیز شیطان بھی اس سے دور ہو جاتا ہے۔
اسی طرح سنن ابو داود : (4431) میں اس بات کا اضافہ ہے کہ: (ایک شیطان کو دوسرا شیطان کہتا ہے: تمہارا ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جسے ہدایت دے دی گئی ، اللہ تعالی اس کے لیے کافی ہے اور اسے بچا بھی لیا گیا ہو!!)
نماز کے بعد بھی یہ الفاظ کہے جاتے ہیں:
چنانچہ ابو زبیر کہتے ہیں کہ: سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما جس وقت نماز سے سلام پھیرتے تو کہتے: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَلا نَعْبُدُ إِلا إِيَّاهُ لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ
اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے اور اسی کے لیے حمد ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ نیکی کرنے کی قوت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں، تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور اسی کا فضل ہے، اور اسی کے لیے اچھی ثنا ہے، اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں یہ اقرار ہم اسی کے لیے عبادت خالص کرتے ہوئے کر رہے ہیں، چاہے کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما مزید کہتے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر نماز کے بعد ان الفاظ کو بلند آواز سے کہا کرتے تھے۔
مسلم: (935)
واللہ اعلم
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد