برائے مہربانى درج ذيل حديث كى شرح كريں:
" جو شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كى جانب سے ا سكا ولى روزے ركھے "
والد طويل مدت تك بيمار رہنے كے بعد فوت ہوا اور اس نے پچھلے رمضان كے روزے مكمل نہيں كيے، تو كيا اس كى جانب سے اس كى اولاد ميں سے كسى كو روزے ركھنا ہونگے، يا كہ اس كى كوئى ضرورت نہيں ؟
بيمارى كى بنا پر رمضان كے روزے چھوڑنے والى فوت شدہ شخص كى جانب سے روزے ركھنا
سوال: 81030
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو يہ مريض دائمى مرض كا شكار تھا جس سے شفايابى كى اميد نہ تھى، تو اس پر نہ تو روزے ہيں، اور نہ ہى روزوں كى قضاء، بلكہ وہ ہر يوم كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائے، اور ا گر اس نے اپنى زندگى ميں يہ كام كر ليا ہے تو ٹھيك وگرنہ اس كے ورثاء اس كى جانب سے مساكين كو كھانا كھلائيں.
ليكن اگر اس كى بيمارى ايسى تھى جس سے شفايابى كى اميد تھى تو اس پر بيمارى كى بنا پر رمضان ميں روزے فرض نہيں، بلكہ اس كے ذمہ قضاء ہے، اور اگر وہ بيمارى رہنے كى بنا پر قضاء كى ادائيگى نہيں كر سكا تو اس كے ذمہ كچھ نہيں، نہ تو روزے ركھنا، اور نہ ہى كھانا كھلانا، اور نہ ہى اس كے ورثاء كے ليے اس كى جانب سے روزے ركھنا لازم ہيں، اور نہ ہى اس كى جانب سے كھانا كھلانا.
ليكن اگر وہ قضاء كى ادائيگى پر متمكن تھا، ليكن اس كے باوجود قضاء كے روزے نہيں ركھے، تو اس كے ورثاء كے ليے اس كى جانب سے اتنے ايام كے روزے ركھنا مستحب ہيں جو اس نے چھوڑے تھے، اور اگر وہ ايسا نہيں كرتے تو پھر ہر يوم كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلا ديں.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" جو شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كى جانب سے ا سكا ولى روزے ركھے "
يعنى جس نے كسى عذر مثلا حيض اور سفر يا بيمارى جس سے شفايابى كى اميد ہے كى بنا پر روزے نہيں ركھے، اور ا نكى قضاء ميں روزے ركھنے پر قادر تھا ليكن اس نے نہيں ركھا تو اس كے ولى كے ليے روزے ركھنا مستحب ہيں.
عون المعبود ميں ہے:
" اہل علم اس پر متفق ہيں كہ: جب بيمارى يا سفر ميں كسى نے روزے ترك كيے، اور پھر اس كى قضاء ميں كوتاہى نہ كى اور مرگيا ت واس كے ذمہ كچھ نہيں، اور نہ ہى اس كى جانب سے كھانا كھلانا واجب ہے، ليكن قتادہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس كى جانب سے كھانا ديا جائيگا، اور طاؤوس سے بھى يہ بيان كيا جاتا ہے "
ديكھيں: عون المعبود ( 7 / 26 ).
اور شيخ ابن عثيمين مجموع الفتاوى ميں مستحب اور مكروہ كيا ہے اور قضاء كا حكم كے تحت لكھتے كہتے ہيں:
" جس كسى نے رمضان المبارك ميں بيمارى كى بنا پر روزے نہ ركھے اور پھر قضاء ميں روزے ركھنے سے قبل كى فوت ہو گيا تو الحمد للہ اس مسئلہ ميں كوئى اشكال نہيں، نہ تو نصوص اور آثار كے لحاظ سے، اور نہ ہى اہل كى كلام كے اعتبار سے.
رہيں نصوص تو اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے .
تو اللہ سبحانہ و تعالى نے دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرنى واجب كى ہے، اس ليے اگر انسان وجوب كا وقت پا لينے سے قبل ہى فوت ہو جائے تو وہ اسى طرح ہے كہ جيسے رمضان المبارك كا مہينہ پانے سے قبل ہى فوت ہو گيا، اس پر آنے والے رمضان كے ليے كھانا كھلانا واجب نہيں ہوتا، چاہے وہ كچھ دير قبل ہى فوت ہو جائے.
اور يہ بھى ہے كہ يہ مريض تو ابھى اپنى مرض ميں ہى ہے اس پر تو روزے فرض ہى نہيں، اس ليے جب شفاياب ہونے سے قبل ہى فوت ہو گيا تو وہ روزے فرض ہونے سے قبل فوت ہوا، اس ليے اس كى جانب سے كھانا كھلانا واجب نہيں ہوتا؛ كيونكہ كھانا كھلانا روزے كے بدلے ميں ہے، اور جب روزے واجب نہيں ہوئے تو اس كا بدل بھى واجب نہيں ہوا.
يہاں سے قرآن مجيد كى اس پر دلالت ثابت ہوتى ہے كہ اگر وہ روزے نہ ركھ سكے تو اس پر كچھ لازم نہيں آتا.
اور سنت كے دلائل يہ ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تواس كا ولى اس كى جانب سے روزے ركھے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1952 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1147 ).
اس حديث كا منطوق تو ظاہر ہے، اور ا سكا مفہوم يہ ہے كہ: جس پر روزے نہ ہوں اور وہ فوت ہو جائے تو اس كى جانب سے روزے نہيں ركھے جائينگے، اور اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس سے آپ كو يہ معلوم ہوا ہو گا كہ جب مريض كا مرض مستقل ہو اور مرض موجود ہو تو اس پر روزے فرض نہيں ہوتے نہ تو بطور ادا نہ ہى بطور قضاء.
اور رہى اہل علم كى كلام تو وہ درج ذيل ہے:
المغنى ابن قدامہ طبع دار المنار ( 3 / 241 ) ميں لكھا ہے:
" ا سكا اجمال يہ ہے كہ جو شخص فوت ہو گيا اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو وہ دو حالتوں سے خالى نہيں:
پہلى حالت:
روزے ركھنے كے امكان سے قبل ہى فوت ہو گيا، يا تو وقت كى تنگى كى بنا پر، يا پھر بيمارى يا سفر كى بنا پر، يا روزے ركھنے سے عاجز تھا: توا كثر اہل علم كے قول كے مطابق اس شخص كے ذمہ كچھ لازم نہيں، اور طاؤوس اور قتادہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ وہ دونوں اس شخص پر كھانا كھلانا واجب قرار ديتے ہيں، پھر اس كى علت بيان كرنے كے بعد اس علت كو باطل بھى كيا ہے.
پھر وہ صفحہ ( 341 ) پر كہتے ہيں:
دوسرى حالت: وہ روزے ركھنے كے امكان كے بعد فوت ہوا ہو، تو اس شخص كى جانب سے ہر يوم كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلانا واجب ہے، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے، اور عائشہ اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى يہى مروى ہے…
پھر كہتے ہيں: اور ابو ثور رحمہ كا قول ہے: اس كى جانب سے روزے ركھے جائينگے، امام شافعى كا قول يہى ہے، پھر ہم اوپر جو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ذكر كى ہے اس سے انہوں نے استدلال كيا ہے.
اور شرح المھذب ( 6 / 343 ) ناشر مكتبہ الارشاد ميں ہے:
" جو شخص بيمارى يا سفر وغيرہ دوسرے عذر كى بنا پر فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں اور وہ ان روزوں كى قضاء كرنے پر قادر نہ ہو سكا ہو تو علماء كے مذاہب اس ميں كئى ايك ہيں:
ہم نے بيان كيا ہے كہ ہمارے مذہب ميں تو اس پر كوئى چيز لازم نہيں آتى، نہ تو اس كى جانب سے روزے ركھے جائينگے، اور نہ ہى اس كى جانب سے كھانا كھلايا جائيگا، ہمارے ہاں اس ميں كوئى اختلاف نہيں.
اور امام ابو حنيفہ اور جمہور كا يہى قول ہے، العبدرى كہتے ہيں: طاؤس اور قتادہ كے علاوہ باقى سب علماء كا قول يہ ہے، وہ دونوں كہتے ہيں كہ: اس كى جانب سے ہر يوم كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلانا واجب ہے، پھر اس كى علت بيان كرنے كے بعد اسے باطل بھى كيا ہے.
وہ كہتے ہيں: ہمارے اصحاب ميں سے بيہقى وغيرہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب ميں تمہيں كوئى حكم دوں تو اس پر اپنى استطاعت كے مطابق عمل كرو "
اور " الفروع " ( 3 / 39 ) طبع آل ثانى ميں درج ہے:
" اور اگر اس نے قضاء كرنے ميں تاخير كى حتى كہ قضاء سے قبل ہى فوت ہو گيا: اگر تو يہ تاخير كسى عذر كى بنا پر تھى تو اس پر كچھ لازم نہيں، دليل نہ ہونے كى وجہ سے اسے تينوں آئمہ كے موافق بيان كيا ہے "
تواس سے يہ واضح ہوا كہ اس مسئلہ ميں كوئى اشكال نہيں، اگر كوئى عذر باقى اور جارى ہو تو بغير روزہ ركھے ہوئے فوت ہونے والے شخص كى جانب سے روزوں كى قضاء نہيں كى جائيگى، اور اسى طرح اس كى جانب سے كھانا بھى نہيں كھلايا جائيگا.
ليكن اگر اس كى بيمارى ايسى ہو كہ اس سے شفايابى كى اميد نہيں تو اس وقت وہ اس بوڑھے كى طرح ہو گا جو روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتا، اس ليے اس كى جانب سے كھانا كھلايا جائيگا؛ كيونكہ اس كى زندگى ميں بھى روزوں كے بدلے اس پر يہى واجب تھا.
اور اسم مسئلہ ميں اہل علم نے جو مقرر كيا ہے، اس كے متعلق نفس ميں كچھ نہيں، اور جو كچھ ہم نےاوپر كى سطور ميں لكھا ہے اس سے آپ كو يہ معلوم ہوا ہو گا كہ اگر طاؤس اور قتادہ سے مروى نہ كيا جاتا تو يہ تقريبا اجماع ہونے والا تھا " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 19 ) مستحب اور مكروہ كيا ہے اور قضاء كا حكم.
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل سوال ہے:
( 97 هـ ) كے رمضان المبارك ميں ميرى والدہ بيمار تھى اور اس ميں سے آٹھ روزے نہيں ركھ سكى اور رمضان كے تين ماہ بعد فوت ہو گئى تو كيا ميں اس كى جانب سے آٹھ روزے ركھوں، اور كيا يہ ممكن ہے كہ ان روزوں كو ( 98 هـ ) كے رمضان كے بعد تك مؤخر كردوں، يا كہ اس كى جانب سے صدقہ كروں ؟
فتاوى كميٹى كا جواب تھا:
" اگر تو آپ كى والدہ رمضان المبارك كے بعد شفاياب ہو گئى تھى جس ميں اس نے آٹھ روزے چھوڑے تھے، اور وہ فوت ہونے سے قبل شفاياب رہى اور روزے قضاء كرنے كى استطاعت ركھتى تھى، ليكن بغير قضاء كيے ہى فوت ہو گئى تو آپ كے ليے يا اس كے كسى رشتہ دار كے ليے اس كى جانب سے آٹھ روزے ركھنے مستحب ہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كى جانب سے ا سكا ولى روزے ركھے "
متفق عليہ.
اور روزوں كو مؤخر كرنا جائز ہے، ليكن قدرت ہونے كے ساتھ روزے جلدى ركھنا اولى اور افضل ہيں.
ليكن اگر وہ مسلسل بيمار رہى اور بيمارى كى حالت ميں ہى فوت ہو گئى اور روزے قضاء كرنے كى استطاعت نہ تھى، تو اس كى جانب سے روزے نہيں ركھے جائينگے، كيونكہ وہ قضاء ميں روزے ركھنے پر متمكن ہى نہيں ہو سكى.
اس كى دليل عمومى فرمان بارى تعالى ہے:
اللہ تعالى كسى بھى جان كو اسكى وسعت و طاقت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا .
اور فرمان بارى تعالى ہے:
تو تم ميں جتنى استطاعت ہے اس كے مطابق اللہ كا تقوى اختيار كرو . انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 372 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب