0 / 0
7,47803/10/2010

اگر شوال كے چھ روزے رہ جائيں تو كيا ذوالقعدہ ميں ركھے جا سكتے ہيں ؟

سوال: 83292

ايك عورت نے شوال كے چار روزے ركھے اور اسے حيض آ گيا تو وہ روزے مكمل نہ كر سكى اس كے دو روزے رہ گئے كيا وہ باقى مانندہ دو روزے ذوالقعدہ ميں ركھ سكتى ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

صحيح مسلم ميں ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھے اور پھر اس كے بعد شوال كے چھ روزے ركھے تو گويا كہ اس نے سارے سال كے ہى روزے ركھے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1164 ).

اس حديث سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ اجروثواب اسے ہى حاصل ہوگا جو شوال ميں روزے ركھتا ہے.

عذر وغيرہ كى بنا پر شوال كى بجائے دوسرے مہينہ ميں روزے ركھنے والے شخص كے بارہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا اسے يہ فضيلت حاصل ہوگى يا نہيں.

اس ميں كئى ايك اقوال ہيں:

پہلا قول:

مالكيہ كى ايك جماعت اور بعض حنابلہ كہتے ہيں كہ شوال يا بعد ميں شوال كے چھ روزے ركھنے والے كو فضيلت حاصل ہوگى، شوال ميں روزے ركھنے والى حديث تو مكلف كى آسانى كے ليے ذكر كى گئى ہے، كيونكہ رمضان كے بعد شوال ميں روزے ركھنا باقى مہينوں سے آسان ہيں.

شرح الخرشى كے حاشيہ ميں عدوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" شارع نے " شوال " روزے ركھنے كى تخفيف ميں كہا ہے، يہ نہيں كہ اس وقت كے ساتھ حكم مخصوص ہے، خاص كر عشرہ ذوالحجہ ميں اس فعل كو سرانجام دينا، جيسا كہ روايت كيا گيا ہے كہ اس ميں روزے ركھنا بہت بہتر ہے؛ كيونكہ مذكورہ ايام كى فضيلت كے ساتھ ساتھ مقصود بھى پورا ہو جائيگا، بلكہ ذوالقعدہ ميں بھى بہتر ہے.

حاصل يہ ہوا كہ جتنا عرصہ شوال سے دور ہو شدت مشقت كى بنا پر اتنا ہى اجر بھى زيادہ ہوگا " انتہى

ديكھيں: حاشيۃ العدوى على شرح الخرشى ( 2 / 243 ).

اور " تھذيب فروق القرافى " جو كہ محمد بن على بن حسين مكہ ميں مالكى حضرات كے مفتى تھے كى ہے اور الفروق كے ساتھ مطبوع ہے ميں منقول ہے كہ:

ابن العربى المالكى سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " شوال ميں چھ روزے ركھنا " يہ مثال كى طور پر ہے، اور مراد يہ ہے كہ رمضان المبارك كے روزے دس ماہ كے برابر ہيں، اور شوال كے چھ روزے دو ماہ كے برابر، اور مذہب بھى يہى ہے ( يعنى امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك ) اور اگر يہ شوال كے علاوہ بھى ہوتے تو اس ميں بھى يہى حكم ہوتا.

وہ بيان كرتے ہيں كہ: اور يہ علم ميں رہے كہ يہ بہت بديع النظر ہے " انتہى

ديكھيں: الفروق ( 2 / 191 ).

اور ابن مفلح رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں يہ احتمال ہو سكتا ہے كہ: اس كى فضيلت شوال كے علاوہ كسى اور مہينہ ميں بھى روزے ركھ كر حاصل ہو سكتى ہے، بعض علماء كا قول يہى ہے، جسے قرطبى نے ذكر كيا ہے، كيونكہ اس كى فضيلت دس درجہ كے برابر ہے جيسا كہ ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں بيان ہوئى ہے، اور اسے شوال كے ساتھ مقيد كرنا صرف آسانى كے ليے ہے كيونكہ روزے ركھنے كى عادت ہونے كى بنا پر شوال ميں روزے ركھنے آسان ہيں اس ليے يہ رخصت ہے، اور رخصت اولى ہے " انتہى

ديكھيں: الفروع ( 3 / 108 ).

اور صاحب الانصاف نے اسے نقل كر كے اس پر يہ تعليق چڑھائى ہے كہ:

" حديث كے مخالف ہونے كى بنا پر يہ كمزور اور ضعيف ہے، بلكہ اسے رمضان كى فضيلت كے ساتھ ملحق كيا گيا كيونكہ يہ اس كے ساتھ ہے، اس ليے نہيں كہ يہ دس مثل ہے، اور اس ليے بھى كہ اس ميں روزے ركھنا واجب كى فضيلت ميں رمضان كے برابر ہيں " انتہى

ديكھيں: الانصاف ( 3 / 344 ).

دوسرا قول:

شافعى حضرات كى ايك جماعت كہتى ہے كہ: جس كے شوال كے چھ روزے رہ جائيں تو وہ ذوالقعدہ ميں قضاء كر لے، ليكن اس كا ثواب شوال كے ثواب سے كم ہوگا.

چنانچہ جس نے رمضان المبارك كے روزے ركھنے كے بعد شوال كے چھ روزے ركھے تو اسے سارے سال كے فرض روزے ركھنے كا ثواب حاصل ہوگا.

ليكن اگر كوئى شخص رمضان المبارك كے روزے ركھ كر چھ روزے شوال كى بجائے كسى اور مہينہ ميں ركھتا ہے تو اسے سارے سال كے فرض روزوں كا ثواب حاصل نہيں ہوگا، بلكہ اسے رمضان المبارك كے ماہ كے فرضى روزوں اور چھ نفلى روزوں كا ثواب حاصل ہوگا.

ابن حجر مكى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے رمضان كے ساتھ اس كے چھ روزے ركھے ت واسے بغير كسى اضافہ كے سارے سال كے فرضى روزوں كا ثواب حاصل ہوگا اور جس نے شوال كے علاوہ مہينہ ميں چھ روزے ركھے تو اس كے روزے بغير كسى اضافہ كے نفلى ہونگى " انتہى

ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 3 / 456 ).

تيسرا قول:

حنابلہ كا مسلك يہى ہے كہ شوال ميں چھ روزے ركھنے سے ہى فضيلت حاصل ہوگى.

" احاديث كے ظاہر كى بنا پر شوال كے چھ روزے شوال ميں ركھنے سے ہى يہ فضيلت حاصلى ہوگى " انتہى

ديكھيں: كشاف القناع ( 2 / 338 ).

ليكن اگر كوئى شخص كسى عذر كى بنا پر انہيں شوال ميں مكمل نہيں كر سكا تو اميد ہے كہ اسے وہى فضيلت حاصل ہو گى جو شوال ميں ركھنے سے ہوتى ہے.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" شوال گزر جانے كے بعد اس كى قضاء كرنا مشروع نہيں كيونكہ اس كا وقت گزر چكا ہے، چاہے عذر كى بنا پر ترك كيے يا بغير عذر كے ترك كيے ہوں "

اور جس نے چار روزے شوال ميں ركھے ليكن وہ كسى مجبورى اور عذر كى بنا پر مكمل نہ كر سكا تو اس كے متعلق شيخ رحمہ اللہ كا كہنا تھا:

" شوال كے چھ روزے ركھنا مستحب عبادت ہے واجب نہيں لہذا آپ نے جو شوال ميں ركھے ان كا اجروثواب حاصل ہوگا اور اميد كى جاتى ہے كہ اگر مكمل كرنے ميں كوئى مانع پيدا ہو گيا اور يہ مانع شرعى ہو تو آپ كو پورا اجروثواب حاصل ہوگا كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب بندہ بيمار ہو جاتا ہے يا سفر ميں چلا جاتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى اس كے ليے وہى عمل لكھتا ہے جو وہ مقيم ہونے اور تندرست ہونے كى حالت ميں كرتا تھا "

اسے امام بخارى نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے.

آپ نے جو روزے شوال كے ترك كيے ہيں ان كى آپ كے ذمہ قضاء نہيں ہے "

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے " انتہى

ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 15 / 389 – 395 ).

حاصل يہ ہوا كہ:

شوال كے چھ روزے شوال كى بجائے كسى دوسرے مہينہ ميں ركھنے كو كچھ اہل علم شوال ميں روزے ركھنے كى طرح ہى كہا ہے، اور بعض نے اس كى فضيلت ثابت كى ہے ليكن يہ فضيلت شوال ميں روزے ركھنے سے كم ہے.

اور بعض اہل علم نے كسى عذر كى بنا پر شوال ميں روزے مكمل نہ كرنے والے كے ليے اميد كى ہے كہ اسے پورا ثواب حاصل ہو جائيگا، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فضل تو وسيع ہے، اور اس كى عطاء كى كوئى انتہاء نہيں.

اس ليے اگر يہ سوال كرنے والى بہن شوال كے رہ جانے والے دو روزے ذوالقعدہ ميں ركھ لے تو بہتر ہے، اور اميد كى جاسكتى ہے كہ اسے ان شاء اللہ پورا اجروثواب حاصل ہوگا.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android