ايك تربيتى كورس ميں چار برس قبل ميرا ايك نوجوان سے تعارف ہوا جو دين اور اچھے اخلاق كا مالك ہے، ليكن اس كے والد مجھ سے شادى كرنے پر اس ليے راضى نہيں كہ ميں اس سے دو برس بڑى ہوں، ميں اس سلسلہ ميں دين كى رائے معلوم كرنا چاہتى ہوں، اور ہم اس سلسلہ ميں كيا كر سكتے ہيں ؟
والد صاحب دو برس بڑى لڑكى كو بہو بنانے پر راضى نہيں
سوال: 87621
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر عورت اخلاق اور دين كى مالك ہو تو اپنے سے دو برس يا اس سے بڑى عمر كى عورت كے ساتھ شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خديجہ بنت خويلد رضى اللہ تعالى عنہ سے شادى كى تو وہ آپ سے زيادہ عمر كى تھيں.
بہو اختيار كرنے ميں باپ كى رائےمعتبر شمار ہوگى، كيونكہ عزت و اكرام اور حسن سلوك ميں اس كا حق ہے، اور اسے وہ تجربہ بھى حاصل ہے جو بيٹے كو نہيں، ليكن نكاح صحيح ہونے كے ليے لڑكے كے والد كى رضامندى شرط نہيں، بخلاف عورت كے كيونكہ عورت كا نكاح ولى كى رضامندى اور اجازت پر موقوف ہے.
دوم:
بيٹے كو چاہيے كہ وہ اپنے والد كو مطمئن كرے، اور اس كے سامنے آپ سے شادى كى رغبت كو واضح كرے، اگر تو وہ قبول كر لے تو الحمد للہ، اور اگر اپنے موقف پر قائم رہتا ہے تو بيٹا دو مشكل معاملوں كےدرميان ہے:
1 ـ يا تو اپنى رغبت چھوڑ دے، اور اپنے والد كى بات مان لے، غالب حالات ميں يہى صحيح ہوتا ہے؛ ليكن اگر باپ كى طبعيت ايسى ہو كہ بيٹے وہى قبول كرنا پڑيگى جو وہ خود اختيار كرے، جو ہو سكتا ہے بيٹے كى رغبت كے موافق نہ ہو، مثلا وہ اپنے خاندان سے يا قبيلہ سے ايسى لڑكى اختيار كرے جو اس كے ليے صحيح نہ ہو، يا پھر اس كا اعتراض لڑكى كے دين اور اس كى استقامت پر ہو تو اس حالت ميں بيٹا اپنے باپ كى مخالفت پر مجبور ہوگا، كيونكہ اگر وہ آج مخالفت نہيں كرتا تو كل ضرور كريگا.
ـ يا پھر بيٹا اپنى رغبت پر عمل كرتے ہوئے ـ فرض كريں كہ وہ خود نكاح كرنے كى استطاع ركھتا ہے ـ باپ كى مخالفت كرے، ليكن ايسا كرنا نہيں چاہيے؛ كيونكہ اس ميں والد كى مخالفت اور اسے ناراض كرنے ميں قطع رحمى اور حصول نفرت كا احتمال ہے، اور اس ميں بيٹے اور اس كى اولاد كو نقصان اور ضرر ہوگا، اور آپ كو بھى، اورعقلمند عورت كو اس طرح كے خاوند پر راضى نہيں ہونا چاہيے، الا يہ كہ اس صورت ميں جو ہم ذكر كر چكے ہيں.
كہ باپ ايسا طريقہ اختيار كرے جو بيٹے كى رغبت سے متعارض ہو، اور اس معارضت سے كوئى مفر نہ ہو، كيونكہ والدين كا ايك خاص نظريہ اور ذوق ہوتا ہے جو بيٹوں كو مناسب نہيں ہوتا، اور ہم والدين كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اپنى اولاد كو اختيار كى آزادى ديں، كيونكہ شادى ہميشہ كے ليے ہوتى ہے، اور انسان كا حق ہے كہ وہ ايسا شريك حيات اختيار كرے جو اس كى زندگى ميں شريك ہو، اور باپ كا دور اس ميں نصيحت و راہنمائى والا ہونا چاہيے، وہ اولاد پر كسى چيز كو لازم نہ كرے، جبكہ بيٹا اپنے مناسب اختيار كر رہا ہے.
اور بيٹے كو بھى چاہيے كہ وہ اپنے باپ كو مطمئن كرنے كى كوشش كرے. اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كو خير و بھلائى كى توفيق دے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب