ميرا سوال كسى حد تك صوفيوں كے متعلق ہے.. ميں ان كى ايك جماعت سے منسلك رہا ہوں جبكہ مجھے حقيقت حال كا علم نہ تھا، ليكن شيخ منجد حفظہ اللہ كے صحيح عقيدہ كے دروس كا سلسلہ سماعت كر كے اور بعض ان معلومات كے حصول كے بعد جن پر غالى قسم كے صوفي ہيں ميرے ليے ان كے ساتھ منسلك افراد كے متعلق شك پيدا ہونے لگا ہے اور ميں حقيقت جاننا چاہتا ہوں اس ليے ميں علم كى نعمت پر اللہ كا شكر ادا كرتا ہوں اور كچھ سوالات كر رہوں جو درج ذيل ہيں:
1 ـ يہ لوگ روزانہ دن ميں تين يا چار ہزار بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھتے ہيں، اور كہتے ہيں كہ آپ جتنا بھى درود زيادہ پڑھينگے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے آپ كى محبت اتنى ہى زيادہ ہو گى، اور آپ كے قرب ميں اضافہ ہو گا، اور جتنا درود زيادہ پڑھينگے خواب ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ديدار كى فرصت و موقع بھى اتنا ہى زيادہ ہو گا، كيا يہ كلام صحيح ہے ؟
اور كيا يہ فعل و عمل جائز ہے، اور كيا يہ عمومى ذكر ميں شامل ہوتا ہے ؟ اور كيا اس كى معاونت ميں كوئى دليل ملتى ہے.
2 ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ احاديث جن ميں سبحان اللہ و بحمدہ سو بار پڑھنے اور كثرت سے ذكر كرنے كا ثبوت ملتا ہے اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث جس ميں كنكريوں پر تسبيح پڑھنے كا ذكر ملتا ہے اور ابن مسعود رضى اللہ نے انہيں اپنى برائياں شمار كرنے كا كہا تھا ان احاديث ميں كس طرح تطبيق دى جا سكتى ہے ؟
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود كى تعداد ميں تحديد
سوال: 88102
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا سب سے افضل اور بہتر قرب ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كا حكم ديا اور ايسا كرنے والوں كى تعريف كى، اور اسے مغفرت و بخشش و حاجات كے پورے ہونےكا باعث و سبب بنايا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اللہ سحانہ و تعالى اور فرشتے نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) پر رحمتيں بھيجتے ہيں، اے ايمان والو تم بھى اس ( نبى صلى اللہ عليہ وسلم ) پر درود و سلام بھيجا كرو الاحزاب ( 56 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى مجھ پر ايك بار درود پڑھا اللہ تعالى اس پر اس كے بدلے دس رحمتيں نازل كرتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 384 ).
اور ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب رات كے دو حصے گزر جاتے اور ايك تہائى باقى رہ جاتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ بيدار ہوتے اور كہتے:
" اے لوگو اللہ كا ذكر كرو، اللہ كا ذكر كرو، صور ميں نفخہ اولى پھونكنا قريب ہے، اور پھر دوسرا نفخہ بھى قريب ہے، موت اور اس ميں جو سختياں ہيں وہ قريب ہے، موت اور اس ميں جو سختياں ہيں وہ آئى كہ آئى.
ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ پر درود كثرت سے پڑھتا ہوں، تو اپنى دعاء ميں آپ پر درود كتنا پڑھوں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جتنا چاہو!!
وہ بيان كرتے ہيں ميں نے عرض كيا: تو پھر ايك چوتھائى حصہ كر لوں ؟
آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جتنا چاہو، اگر اس سے زيادہ كر لو تو تمہارے ليے بہتر ہے !!
وہ بيان كرتے ہيں ميں نے عرض كيا: نصف كر لوں ؟ ! رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جتنا چاہو، اور اگر زيادہ كر لو تو يہ تمہارے ليے بہتر ہے !!
وہ بيان كرتے ہيں ميں نے عرض كيا: تو پھر دو تہائى حصہ كر لوں ؟
آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جتنا چاہو، اگر اس سے زيادہ كر لو تو تمہارے ليے بہتر ہے !!
ميں نے عرض كيا: اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم تو پھر ميں اپنى سارى دعا ميں ہى آپ پر درود پڑھتا رہوں ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو پھر يہ درود تيرے غم و پريشانى كے ليے كافى ہو جائيگا، اور تيرے گناہوں كى بخشش كا باعث ہو گا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2457 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ " جلاء الافھام " ميں رقمطراز ہيں:
" ہمارے استاد ابو العباس ( يعنى ابن تيميہ ) رحمہ اللہ سے اس حديث كى شرح پوچھى گئى تو انہوں نے فرمايا:
ابى بن كعب رضى اللہ تعالى نے اپنے ليے ايك دعاء مخصوص كر ركھى تھى، تو انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ كيا وہ اس دعاء كا ايك چوتھائى حصہ ان درود كے ليے مخصوص كر لوں …. الخ .
كيونكہ جو كوئى بھى نبى كريم اللہ صلى اللہ عليہ وسلم پر ايك بار درود پڑھتا ہے اللہ تعالى اس كے بدلے دس رحمتيں نازل فرماتا ہے، اور جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھتا ہے وہ اس كے غم و پريشانى كے ليے كافى ہو جاتا ہے، اور اس كے گناہ بخش ديے جاتے ہيں .
ديكھيں: جلاء الافھام ( 79 ).
اور تحفۃ الاحوذى ميں لكھا ہے:
" فَكَمْ أَجْعَلُ لَك مِنْ صَلَاتِي " يعنى ميں اپنے ليے دعا كى جگہ آپ پر كتنا درود بھيجوں، يہ ملا على قاري كاقول ہے.
اور " الترغيب " ميں منذرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كا معنى يہ ہے كہ ميں دعا زيادہ كرتا ہوں، تو اپنى دعا ميں آپ كے ليے درود كا كتنا حصہ ركھوں….
" قُلْتُ أَجْعَلُ لَك صَلَاتِي كُلَّهَا " ميں نے عرض كيا كہ ميں سارى دعا ميں ہى آپ پر درود بھيجوں گا، يعنى ميں جتنى دير اپنے ليے دعا كرتا ہوں وہ سارا وقت ہى آپ پر درود ميں صرف كرونگا.
قولہ: " إِذًا تُكْفَى هَمَّكَ ، وَيُغْفَرُ لَكَ ذَنْبُكَ " تو پھر تيرے ہم و غم كے ليے كافى ہوگا اور تيرے گناہ بخش ديے جائينگے:
الھم اسے كہتے ہيں جب انسان دنيا و آخرت ميں قصد كرے يعنى: جب آپ اپنى دعا كا سارا وقت مجھ پر درود ميں صرف كرو گے تو تجھے دنيا و آخرت كى كاميابى حاصل ہو گى " انتہى
شيخ الاسلام ابن تيميہ كہتے ہيں:
" يہ انتہا ہے جس كے ساتھ انسان اپنے ليے نفع و خير طلب كرتا اور نقصان سے بچ سكتا ہے؛ كيونكہ دعا ميں مطلوب كا حصول اور خدشہ والى چيز كو دور كرنا طلب ہوتا ہے "
ديكھيں: الرد على السبكى ( 1 / 133 ).
اور المصابيح كے بعض شارحين كہتے ہيں:
" … نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ليے اس كى حد مقرر كرنا مناسب نہيں سمجھا، تا كہ مزيد كا دروازہ بند نہ ہو جائے، بلكہ مزيد كا خيال كرتے ہوئے انہيں اختيار ديتے رہے حتى كہ انہوں نے عرض كيا: ميں اپنى سارى دعا ہى آپ پر درود كے ليے بنا ديتا ہوں، تو پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تو پھر يہ تيرے ہر غم و ہم يعنى تيرے دينى و دنياوى معاملے كے ليے كافى ہو جائيگا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود اللہ كے ذكر اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم پر مشتمل ہے، اور فى المعنى يہ اپنے ليے دعا كا اشارہ ہے.. "
اسے سخاوى نے القول البديع ( 133 ) ميں نقل كيا ہے.
اور ترمذى ميں عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" روز قيامت ميرے سب سے نزيك مجھ پر سب سے زيادہ درود پڑھنے والا ہو گا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 484 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب و الترھيب ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
تحفۃ الاحوذى ميں ہے:
" اولى الناس بى " يعنى ميرے سب سے قريب يا ميرى شفاعت كا زيادہ حقدار وہ ہے جو:
" اكثرھم علي صلاۃ " جو سب سے زيادہ مجھ پر درود پڑھنے والا ہو، كيونكہ كثرت درود تعظيم پر مبنى ہے، اور كامل محبت كى بنا كے نتيجہ ميں متابعت و پيروى كى مقتضى ہے جس كے نتيجہ ميں اللہ سبحانہ و تعالى كى محبت حاصل ہوتى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كہہ ديجئے كہ اگر تم اللہ تعالى سے محبت كرنا چاہتے ہو تو ميرى ( محمد صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اتباع و پيروى كرو، اللہ تعالى تم سے محبت كريگا اور تمہارے گناہ معاف كر ديگا .
لہذا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود كى فضيلت ميں كوئى شك نہيں كر سكتا.
آپ نے جو سوال ميں يہ كہا ہے كہ:
" آپ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جتنا زيادہ درود پڑھينگے آپ كى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت بھى اتنى ہى زيادہ ہو گى، اور آپ كا قرب بھى زيادہ ہو گا.
اس كى يہ بات صحيح ہے، كيونكہ جو چيز كسى كو زيادہ ياد كرے اور جسكا ذكر زيادہ كرتا ہو وہ اس سے محبت كرتا ہے.
اور ان كا يہ قول:
" آپ جتنا درود زيادہ پڑھينگے خواب ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ديدار كى فرصت اور موقع بھى اتنا ہى زيادہ ہو گا "
يہ قول واقع كے اعتبار سے صحيح بھى ہو سكتا ہے، ليكن اس كى كوئى دليل نہيں ملتى، اور اس پر بھروسہ كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى رؤيت نہيں، ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا و پيروى كرنا، اور آپ كى سنت پر عمل پيرا ہونا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كو اپنے نفس اور ہر چيز سے مقدم كرنے سے بات بنے گى، وگرنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو تو بہت سارے لوگوں نے بيدارى كى حالت ميں ديكھا تھا ليكن وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےسب سے بڑے مخالف تھے اور آپ كى راہ ميں روڑے اٹكانےوالے تھے.
جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا قرب اور عبادت ہے تو اس كے ليے تعداد كى تعيين كرنا جائز نہيں، اس كى شريعت ميں كوئى تحديد نہيں ہوئى، چاہے وہ ايك ہزار ہو يا دو يا تين ہزار وغيرہ جسے صوفياء حضرات نے ايجاد كيا ہوا ہے، كيونكہ يہ تحديد شريعت كے مقابلہ ميں ہونے كى بنا پر مذموم بدعت شمار ہوتى ہے.
اور علماء كرام نے بيان كيا ہے عبادت كے ليے اصلا اور وصفا اور عدد و كيفيت اور جگہ و وقت كے اعبتار سے مشروع ہونا ضرورى ہے، يعنى دوسرے معنوں ميں عبادت كو بغير كسى شرعى دليل كے كسى جگہ يا وقت يا كيفيت كے ساتھ متعين كرنا جائز نہيں.
يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ ہر بدعت گمراہى ہے چاہے لوگ اسے اچھا ہى سمجھتے ہوں، بلكہ بدعت تو ابليس كو معصيت و نافرمانى سے بھى زيادہ محبوب اور پيارى لگتى ہے كيونكہ اس سے توبہ نہيں كى جا سكتى.
امام مالك رحمہ اللہ كہتا كرتے تھے:
" جس كسى نے بھى دين اسلام ميں كوئى بدعت ايجاد كى اور وہ اسے اچھا سمجھتا ہو تو اس نے گمان كيا كہ ( نعوذ باللہ ) محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے رسالت ميں خيانت كى ہے "
يہاں جس نے بھى درود كو تين ہزار كى تعداد ميں محدود كيا ہے اس سے كہا جائيگا: اس عدد كى تعيين ميں آپ كو كس چيز نے ابھارا اور آمادہ كيا اور اس كى خاصيت كيا ہے ؟ اگر اس ميں كوئى خير ہوئى تو وہ بيان كريگا، وگرنہ اسے كہ جائيگا:
كيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خير و بھلائى كى طرف راہنمائى كرنے ميں ( نعوذ باللہ ) كوئى كوتاہى كى ہے ؟! حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو سب لوگوں سے زيادہ اپنى امت پر حريص تھے اور ان سے بھى زيادہ ان پر رحم كرنے والے تھے.
اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ كى اس معين عدد كى طرف راہنمائى كيوں نہ فرمائى ؟! ـ جيسا كہ اوپر حديث ميں بيان ہوا ہے .
اصل واقع يہ ہے كہ بہت سارے صوفى حضرات اس قسم كى تحديد ميں خوابوں پر اعتماد كرتے ہيں، يا پھر مجرد اختراع و ايجاد پر، اور اپنے مريدوں كو يہ باور كراتے ہيں كہ اس سے زائد كرنا صحيح نہيں، كيونكہ زيادہ كرنے كے ليے پير اور بزرگ كى اجازت ضرورى ہے جو اس كے حالات پر مطلع ہے، بلكہ وہ اس كے پوشيدہ حالات كو بھى جانتا ہے، اس كے علاوہ اور باطل قسم كى اشياء بھى جن كے ذريعہ سے يہ لوگ اپنے پيروكاروں پر تسلط جمانے كى كوشش كرتے ہيں.
اور اس بدعتى شخص كے بارہ ميں خدشہ ہے كہ كہيں يہ اپنے اعمال ہى ضائع نہ كر بيٹھے، اور اس كى سارى نيكياں ہى تباہ نہ ہو جائيں، اور اپنى عبادت كا اسے كوئى اچھا پھل اور نتيجہ ہى حاصل نہ ہو، خاص كر جب وہ اس بدعت كو عمدا اور جان بوجھ كر كرے اور علم و بصيرت حاصل نہ كرے.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا عمل ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) ( 1718 ).
اس ليے آپ ديكھيں گے كہ اس طرح كے اكثر لوگوں پر ذكر كا كوئى اثر نہ تو ان كے معاملات ميں ظاہر ہوتا ہے اور نہ ہى ان كے حالات ميں، اور اس كے ساتھ ساتھ وہ مشروع اور مسنون اذكار و دعاؤں ميں كمى و كوتاہى كا شكار ہوتے ہيں، جس ميں شريعت ميں حد متعين كر ركھى ہے مثلا: سبحان اللہ و بحمدہ ايك سو بار صبح و شام كہنا.
مزيد آپ سوال نمبر ( 11938 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
دوم:
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث كى طرف آپ نے اشارہ كيا ہے وہ دارمى نے عمرو بن سلمہ سے روايت كى ہے جسے ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں:
عمرو بن سلمہ بيان كرتے ہيں ہم صبح كى نماز سے قبل عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كے دروازے پر بيٹھ جاتے اور جب وہ باہر نكلتے تو ہم ان كے ساتھ مسجد چلے جاتے، ہم بيٹھے ہوئے تھے كہ ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى آئے اور دريافت كيا كيا ابو عبد الرحمن باہر آئے ہيں ؟ تو ہم نے عرض كيا نہيں تو وہ بھى ہمارے ساتھ بيٹھ گئے، اور جب وہ باہر نكلے تو ہم سب اٹھ كر چل ديے تو ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كي اے ابو عبد الرحمن ميں نے ابھى ابھى مسجد ميں ايك كام ديكھا ہے اور مجھے وہ اچھا نہيں لگا، اور الحمد للہ وہ اچھا ہى معلوم ہوتا ہے، ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے دريافت كيا وہ كيا ؟
تو ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے كہنے لگے اگر تم زندہ رہے تو ديكھو گے، وہ بيان كرنے لگے:
ميں نے مسجد ميں لوگوں كو نماز كا انتظار كرتے ہوئے ديكھا كہ وہ حلقے باندھ كر بيٹھے ہيں اور ہر حلقے ميں لوگوں كے ہاتھوں ميں كنكرياں ہيں اور ايك شخص كہتا ہے سو بار تكبير كہو، تو وہ سو بار اللہ اكبر كہتے ہيں، اور وہ كہتا ہے سو بار لا الہ الا اللہ كہو تو وہ سو بار لا الہ الا اللہ كہتے ہيں، وہ كہتا ہے سو بار سبحان اللہ كہو تو وہ سو بار سبحان اللہ كہتے ہيں.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں: تو پھر آپ نے انہيں كيا كہا ؟
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ نے جواب ديا:
ميں نے انہيں كچھ نہيں كہا ميں آپ كى رائے اور حكم كا انتظار كر رہا ہوں.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے:
تم نے انہيں يہ حكم كيوں نہ ديا كہ وہ اپنى برائياں شمار كريں اور انہيں يہ ضمانت كيوں نہ دى كہ ان كى نيكياں ضائع نہيں كى جائيگى ؟
پھر وہ چل پڑے اور ہم بھى ان كے ساتھ گئے حتى كہ وہ ان حلقوں ميں سے ايك حلقہ كے پاس آ كر كھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: يہ تم كيا كر رہے ہو ؟
انہوں نے جواب ديا: اے ابو عبد الرحمن كنكرياں ہيں ہم ان پر اللہ اكبر اور لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ پڑھ كر گن رہے ہيں.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:
تم اپنى برائيوں كو شمار كرو، ميں تمہارى نيكيوں كا ضامن ہوں وہ كوئى ضائع نہيں ہو گى، اے امت محمد صلى اللہ عليہ وسلم افسوس ہے تم پر تم كتنى جلدى ہلاكت ميں پڑ گئے ہو، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كتنے وافر مقدار ميں تمہارے پاس ہيں، اور ابھى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كپڑے بھى بوسيدہ نہيں ہوئے اور نہ ہى ان كے برتن ٹوٹے ہيں، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميرى جان ہے كيا تم ايسى ملت پر ہو جو ملت محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور طريقہ سے زيادہ ہدايت پر ہے يا كہ تم گمراہى كا دروازہ كھولنے والے ہو.
انہوں نے جواب ديا: اے ابو عبد الرحمن ہمارا ارادہ تو صرف خير و بھلائى كا ہى ہے.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے جواب ديا:
اور كتنے ہى خير و بھلائى كا ارادہ ركھنے والے اسے پا نہيں سكتے.
تو ہر خير و بھلائى كا ارادہ ركھنے والا اسے پا نہيں سكتا ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں بتايا ہے كہ:
" كچھ لوگ قرآن مجيد پڑھينگے ليكن وہ ان كے حلقوم سے نيچے نہيں جائيگا "
اور اللہ كى قسم مجھے معلوم نہيں ہو سكتا ہے ان كى اكثريت تم ميں سے ہو يہ كہہ كر ابن مسعود رضى اللہ عنہ وہاں سے چل ديے، عمرو بن سلمہ بيان كرتے ہيں ہم نے ان حلقوں ميں بيٹھنے والے عام افراد كو نھروان كى لڑائى والے دن خارجيوں كے ساتھ ديكھا كہ وہ ہم پر طعن كر رہے تھے "
سنن دارمى حديث نمبر ( 204 ).
اور يہ سنت ميں بعض اذكار كى تحديد كے معارض و مخالف نہيں، ليكن يہاں دو چيزيں قابل مذمت ہيں:
ايك تو معين عدد كى تحديد كرنا جس كى شريعت ميں تعيين وارد نہيں ہے.
اور دوسرا بغير كسى دليل كے معين كيفيت يا معين وقت كے ساتھ محدد كرنا، جس طرح كہ ان لوگوں كا حال تھا جن كے عمل كو عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے غلط قرار ديتے ہوئے ٹوكا اور روكا، لہذا كنكريوں كا استعمال اور اس راہنمائى اور نگران شخص كا وجود جو انہيں كہہ رہا تھا كہ سو بار سبحان اللہ كہو، اور سو بار اللہ اكبر كہو، يہ كيفيت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں اور نہ ہى آپ نے ايسا كيا.
شاطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
تو پھر بدعت كى تعريف يہ ہوئى كہ دين جو نيا طريقہ اختراع كر ليا جائے اور شريعت كا مقابلہ كرے، اس پر چلنے سے اللہ كى عبادت ميں مبالغہ كرنا مقصود ہو، كہ عبادت زيادہ كى جائے تو يہ بدعت كہلاتا ہے…
اور اس ميں يہ بھى شامل ہے:
كيفيت و ہئيت كى تعيين كر نے كا التزام كرنا، مثلا ايك ہى آواز ميں اجتماعى ذكر كرنا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت باسعادت كے دن كو جشن منانا اور اسے عيد ماننا اور اس طرح كے دوسرے امور.
اور اس ميں يہ بھى شامل ہے:
معين عبادات كا معين اوقات ميں التزام كرنا جن كى تعيين شريعت ميں نہ ملتى ہو، مثلا پندرہ شعبان كو نصف شعبان كا روزہ ركھنا، اور اس رات قيام كرنا " انتہى
ديكھيں: الاعتصام ( 1 / 37 – 38 ).
اور ابن مسعود رضى اللہ تعال عنہما كا قصہ صوفياء حضرات كے عمل كے بطلان كى دليل ہے جس طرح وہ معين تعداد ميں اپنے پير اور بزرگ كے كہنے پر تعداد محدود و متعين كرتے ہيں، اور اس كے ساتھ اپنى جانب سے ايجاد كردہ كيفيات جس ميں كھڑے ہو كر اور بيٹھ كر اور وہ حركات جسے وہ حال كا درجہ ديتے ہيں اورالتزام كرنے كا كہتے ہيں يہ سب باطل ہے.
معاملہ اس سے بھى بڑا ہے، مخالفت صرف اس بدعت ميں ہى محصور نہيں رہى بلكہ وہ اس سے تجاوز كرتى ہوئى اعتقاد و عمل ميں شرك تك جا پہنچى ہے مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو پكارنا اور اولياء و صالحين سے نفع و نقصان كى اميد اور اعتقاد ركھنا.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ راہ سے بھٹكے ہوئے مسلمانوں كو ہدايت نصيب فرمائے، اور ہميں اور آپ كو اللہ اور اس كے رسول كى اطاعت و فرمانبردارى كرنے اور اپنى رضامندى والے عمل كرنے كى توفيق بخشے.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات