مجھے بتلائیں کہ میں کس طرح ایک جدید دور کی نو عمر لڑکی بھی رہوں اور اپنے گھر والوں کو بھی خوش رکھو کہ سب مجھ سے محبت کریں، نیز میں اپنی سہیلی سے کیسے چھٹکارا پاؤں مجھے اس سے محبت نہیں ہے، نہ ہی اس سے محبت کا کوئی راستہ میرے پاس ہے۔
دوستی کے حوالے سے نو عمر لڑکیوں کے لیے نصیحتیں
سوال: 93519
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ انسان متعدد مراحل سے گزرتا ہے لیکن ان تمام مراحل میں سے لڑکپن کا مرحلہ سب سے خطرناک مرحلہ ہے ؛ کیونکہ اس مرحلے میں بہت سی جسمانی، ذہنی، جذباتی اور جنسی تبدیلیاں آتی ہیں اور شیطان ؛ انسان کو اس مرحلے میں کسی بھی طرح سے بہکانا چاہتا ہے۔ اور بہکانے کے لیے وہ کوئی بھی طریقہ کار اپنا سکتا ہے۔ اس لیے اس مرحلے میں ہر نو عمر لڑکے اور لڑکی کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ چنانچہ اس حوالے سے ہم درج ذیل باتوں کی نصیحت کریں گے:
اول: فرض اور مستحب ہر طرح کی عبادات کرنے کی کوشش کریں ۔ نیز حرام، مشتبہ اور مکروہ چیزوں سے دور رہیں۔
شیطان کے جال سے بچنے اور اللہ کی نافرمانی سے دور رہنے کے لیے جو ذرائع آپ کے معاون ہو سکتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
- ہمیشہ یہ ذہن نشین کر لیں کہ اللہ تعالی کی جانب سے تسلسل کے ساتھ آپ کی نگرانی جاری ہے، خصوصاً تنہائی میں اللہ تعالی کی عظمت ذہن میں اجاگر رکھیں، جیسے کہ ایک شاعر کا کہنا ہے:ؔ
{ إِذَا مَا خَلَوْتَ الدَّهْرَ يَوْماً فَلَا تَقُلْ خَلَوْتُ وَلَكِنْ قُلْ عَلَيَّ رَقِيْبٌ}
اگر زندگی میں کبھی تنہائی پاؤ تو یہ مت سمجھنا کہ میں تنہا ہوں، بلکہ یہ کہو: ایک ذات میری نگران ہے۔
{ وَلَا تَحْسَبَنَّ اللهَ يَغْفَلُ سَاعَةً وَلَا أَنَّ مَا تَخْفَى عَلَيْهِ يَغِيْبُ}
اللہ تعالی کو کبھی بھی ایک لمحے کے لیے بھی غافل مت سمجھنا، اور یقین رکھنا کہ خفیہ چیزیں اللہ تعالی سے اوجھل نہیں ہو سکتیں۔
ایک اور شاعر کا کہنا ہے کہؔ:
{ وَإِذَا خَلَوْتَ بِرِيْبَةٍ فِيْ ظُلْمَةٍ وَالنَّفْسُ دَاعِيَةٌ إِلَى الطُّغْيَانِ }
جب تو اندھیرے میں مشکوک سرگرمی کے لیے تنہا ہو اور دل سرکشی کی دعوت دے
{ فَاسْتَحِي مِنْ نَظْرِ الْإِلَهِ وَقُلْ لَّهَا إِنَّ الَّذِيْ خَلَقَ الظِّلَامَ يَرَانِيْ}
تو اللہ تعالی سے حیا کرو، اور اپنے آپ سے کہو: اندھیروں کا خالق مجھے دیکھ رہا ہے۔
- شیطانی قدموں کے پیچھے مت چلیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ
ترجمہ: اے ایمان والو! شیطانی قدموں کے پیچھے مت چلو، اور جو بھی شیطانی قدموں کے پیچھے چلے گا تو شیطان اسے بے حیائی اور برائی کا حکم دے گا۔ [النور: 21] شیطانی قدم پیچھے چلنے والوں کے لیے نہ ختم ہونے والی زنجیر کی طرح ہوتے ہیں، جس میں ہر اگلا شیطانی قدم پہلے سے زیادہ سنگین ہوتا ہے ، الا کہ انسان اپنے آپ کو توبہ کر کے بچا لے اور شیطانی راہ سے دور کر لے۔ - ہر قسم کے گناہ سے توبہ کرے، مسلمان سے گناہ ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں، مسلمان سے گناہ سر زد ہو سکتا ہے، لیکن اس صورت میں واجب یہ ہے کہ توبہ کر کے گناہ سے ہٹ جائے، گناہ پر قائم رہنا اور بار بار گناہ کرنا مسلمان کو روا نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ ترجمہ: اور وہ لوگ جب کوئی بے حیائی کر لیں یا اپنی جانوں پر ظلم ڈھا لیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں، اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو معاف فرماتا ہے؟ اور وہ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے کیے ہوئے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے ۔ [آل عمران: 135]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے، اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے انسان ہیں۔)اس حدیث کو ابن ماجہ رحمہ اللہ (4251)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ - موت اور اللہ تعالی سے ملاقات ذہن میں تازہ رکھیں، کیونکہ جسے یہ بات یاد ہو کہ موت اچانک آتی ہے ، اور ایک دن اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونا ہے، پھر اللہ تعالی اس سے اعمال کے متعلق باز پرس فرمائے گا، تو ایسا شخص گناہوں سے دور رہے گا۔
- دعاؤں کے ذریعے اللہ تعالی سے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق مانگیں، اللہ تعالی دعا کرنے والے کو کبھی رسوا نہیں فرماتا، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُم يَرْشُدُونَ ترجمہ: اور جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو میں یقیناً قریب ہی ہوں، میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، لہذا وہ میری باتوں کو تسلیم کریں اور مجھ پر اعتماد رکھیں، تا کہ وہ بھلائی پائیں۔ [البقرۃ: 186]
دوم: آپ اچھی سہیلیوں کے ساتھ بیٹھنے کی عادت بنائیں، بری عادات کی حامل بچیوں سے دور رہیں؛ کیونکہ انسان دوست کے نظریات پر چلتا ہے۔ اور ایک مشہور بات بھی ہے کہ: آپ کسی کے متعلق جاننا چاہیں تو اس کے متعلق مت پوچھیں بلکہ اس کے دوستوں کے متعلق پوچھیں؛ کیونکہ دوست ؛ دوستوں کے نقش قدم پر چلتا ہے۔
سوم: اپنا وقت دین و دنیا کے لیے مفید اور صحت مند سرگرمیوں میں صرف کریں، اپنے آپ کو فارغ مت چھوڑیں؛ کیونکہ فراغت اس مرحلے میں بہت بڑی خرابی ہے۔
چہارم: اگر آپ چاہتی ہیں کہ لوگوں کے دلوں کو موہ لیں تو پھر آپ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں، اور ان کے ساتھ حسن سلوک اپنائیں، دوسروں کی مدد کریں، ان کے کام کاج میں ہاتھ بٹا ئیں؛ اس طرح آپ ان کے دلوں میں گھر کر جائیں گی، آپ نے بہ زبان شاعر تو سنا ہو گا:
{ أَحْسِنْ إِلَى النَّاسِ تَسْتَعْبِدْ قُلُوْبَهُمُ * فَطَالَمَا اِسْتَعْبَدَ الْإِنْسَانَ إِحْسَانُ}
مفہوم: لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو تم ان کے دلوں پر قبضہ کر لو گے؛ کیونکہ انسان پر بھلائی ہی قبضہ کر سکتی ہے۔
اسی حوالے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایک سنہری قول منقول ہے کہ:
{ اُمنُنْ عَلَى مَنْ شِئْتَ تَكُنْ أَمِيْرَهُ ، وَاحْتَجْ إِلَى مَنْ شِئْتَ تَكُنْ أَسِيْرَهُ ، وَاسْتَغْنِ عَمَّنْ شِئْتَ تَكُنْ نَظِيْرَهُ !!}
تم جس کا بھی بھلا کرو گے تم اس کے آقا بن جاؤ گے، اور تم جس کے سامنے بھی اپنی حاجت پیش کرو گے تم اس کے غلام بن جاؤ گے، اور تم کسی کے بھی سامنے بے نیازی اپناؤ تو تم اسی کے ہم پلہ بن جاؤ گے۔
یہاں ہم آپ کو لوگوں کے دلوں پر قبضہ جمانے اور انہیں اپنی طرف مائل کرنے کے لیے بہترین نسخہ بتلاتے ہیں جو کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا
ترجمہ: یقیناً جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کر رہے ہیں، عنقریب رحمن ان کے لئے (لوگوں کے دلوں میں) محبت پیدا کر گے گا۔ [مریم: 96]
اس آیت کی تفسیر میں قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ کی قسم بالکل ایسا ہی ہے کہ اللہ تعالی اہل ایمان کے دلوں میں اس کی محبت پیدا کر دیتا ہے؛ ہمیں بتلایا گیا ہے کہ ھرم بن حیان کہا کرتے تھے: کوئی بھی بندہ دل کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو تو اللہ تعالی اہل ایمان کے دل اس کی طرف متوجہ فرما دیتا ہے، اور اسے تمام اہل ایمان کی محبت اور شفقت عطا فرماتا ہے۔" ختم شد
تفسیر طبری: (18/266)
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب اللہ تعالی کسی بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ تعالی جبریل -علیہ السلام-سے فرماتا ہے: میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر، تو سیدنا جبریل -علیہ السلام-بھی اس سے محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں، پھر جبریل -علیہ السلام-آسمان میں صدا لگاتے ہیں کہ: یقیناً اللہ تعالی فلاں آدمی سے محبت فرماتا ہے، اس لیے تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین پر بھی اس کے لئے قبولیت اور پذیرائی رکھ دی جاتی ہے۔ اور جب اللہ تعالی کسی سے نفرت فرماتا ہے تو جبریل -علیہ السلام- کو بلا کر فرماتا ہے: میں فلاں سے نفرت کرتا ہوں، لہذا تو بھی اس سے نفرت رکھ۔ تو جبریل -علیہ السلام- اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور پھر جبریل -علیہ السلام- آسمان میں صدا لگاتے ہیں: یقیناً اللہ تعالی فلاں شخص سے نفرت فرماتا ہے، اس لیے تمام اہلیان آسمان اس سے نفرت کریں، تو وہ سب بھی نفرت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین پر بھی اس کے لیے نفرت رکھ دی جاتی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (7485) اور مسلم : (2637) نے روایت کیا ہے۔
محترمہ آپ نے دیکھا ! کہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا اور لوگوں کی محبت حاصل کرنا یہ آپ کی طاقت میں ہی نہیں ہے، نہ ہی کوئی دوسرا شخص اس چیز کی قدرت رکھتا ہے، یہ تو صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالی کی ذات ہی ہے جو لوگوں کے دلوں کو آپس میں ملاتی ہے، وہی ذات ہے جو لوگوں کے دلوں میں دوریاں ڈالتی ہے، وہی ذات عنایت کرنے والی اور روکنے والی ہے، وہی ذات پست و بالا کرتی ہے، یہی اللہ سبحانہ و تعالی کے رب ہونے کا تقاضا بھی ہے۔
تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی محبت کیسے حاصل کی جائے؟ کیونکہ اللہ تعالی کی محبت مومن کے لیے سب سے بڑا ہدف ہے، اور اس عظیم ہدف کو پانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اللہ تعالی کے نبی کی اتباع اور اطاعت، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
ترجمہ: کہہ دے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو تم میری پیروی کرو؛ تم سے اللہ تعالی محبت فرمائے گا، اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور اللہ تعالی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[آل عمران: 31]
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ( یقیناً اللہ تعالی نے فرمایا: جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی رکھی میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں، اور میرے قریب ترین ہونے کے لیے سب سے پسندیدہ عمل فرض عبادات کو بجا لانا ہے، میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں، چنانچہ جب محبت کرنے لگوں تو اِس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس کے ذریعے چلتا ہے، پھر مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے یقیناً ضرور دونگا، اور اگر مجھ سے پناہ مانگے تو میں لازمی پناہ دونگا، اور میں جو کام بھی کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی جان نکالنے میں ہوتا ہے ۔ وہ تو موت کو بوجہ جسمانی تکلیف کے پسند نہیں کرتا اور مجھے اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے) بخاری: (6502)
یہ سب کچھ حاصل ہونے کے بعد بھی اگر کچھ ایسے شر پسند اور فسادی لوگ ہوں جو مسلم معاشرے میں برائی اور بے حیائی کی ترویج چاہتے ہوں، آپ کے بارے میں بھی ان کے ارادے اچھے نہ ہوں، ان کی چاہت ہو کہ آپ بھی انہی کی ہم رکاب بنیں، آپ کی نیکی اور اللہ تعالی کی بندگی ان کے لیے گراں ہو تو پھر آپ ان کی طرف دھیان بھی نہ دیں، آپ اپنے سیدھے راستے پر چلتی چلی جائیں، اور اللہ تعالی کے نیک بندوں کی ہم رکاب بنیں کیونکہؔ
{ إِذا رَضِيَتْ عَنِّي كِرامُ عَشيرَتي فَلا زالَ غَضْباناً عَلَيَّ لِئامُها}
جب بھی میرے خاندان کے معزز لوگ مجھ سے راضی ہوتے ہیں تو خاندان کے کمینے لوگ ہمیشہ مجھ سے ناراض رہے ہیں۔
یہاں ہم اس بات پر ضرور دیں گے کہ : والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سب سے زیادہ ضروری ہے؛ کیونکہ انسان کے حسن سلوک کے سب زیادہ حقدار والدین اور رشتہ دار ہوتے ہیں، انہی کے دلوں میں جگہ بنانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اگر آپ کے والدین کی طرف سے آپ پر چھوٹے ہونے کی وجہ سے کبھی سختی ہو بھی جائے تو اس پر صبر کریں؛ کیونکہ آپ جتنی بھی بڑی ہو جائیں گی آپ اپنے والدین کے لیے چھوٹی ہی رہیں گی۔
ویسے بھی آپ کی مکمل نگرانی، تربیت اور آپ کا بھر پور انداز سے خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے، والدین آپ کے امین ہیں، دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں آپ کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا، اس لیے ان کا حق ہے کہ وہ آپ کو ادب سکھائیں، دینی احکامات کی پاسداری سکھائیں، لوگوں کے ایسے رسم و رواج جو شریعت سے متصادم نہیں ہیں ان کا احترام کرنا سمجھائیں، لیکن یہ سب چیزیں نو عمری میں انسان کو بالکل بھی اچھی نہیں لگتیں!!جس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آپ نے سوال میں بیان کیا ہے! آپ کو لگتا ہے کہ آپ کسی مخمصے میں پھنس گئی ہیں! یعنی آپ کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میری نو عمری کی کیفیت کے جو تقاضے اور خواہشات ہیں یہ اور والدین سمیت بڑوں کے آداب کے تقاضے ان سب کو کیسے بیک وقت پورا کروں؟!
اس طرح آپ کو بقیہ سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ اگر آپ کی سہیلی اچھی عادات کی حامل ہے، تو پھر آپ اس سے دوستی لگائیں اور اکٹھے رہیں، اور اگر غلط عادات کی حامل ہے تو پھر اپنے آپ کو اس سے دور کر لیں، آپ اس سے کنارہ کشی اختیار کریں گی تو وہ بھی آپ سے دور ہو جائے گی:
الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّأُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ترجمہ: خبیث عورتیں، خبیث مردوں کے لئے، اور خبیث مرد، خبیث عورتوں کے لئے ہیں۔ اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں۔ ان کا دامن ان باتوں سے پاک ہے جو وہ بکتے ہیں، ان کے لئے بخشش بھی ہے اور عزت کی روزی بھی۔ [النور: 26]
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب