اگر كوئى شخص ملازمت سے عمرہ پر جانے كے ليے چھٹى لے اور اس كے ليے كوئى اور ويزہ بھى دكھائے اور عمرہ پر نہ جائے تو اس كے روزے اور نماز كا حكم كيا ہے ؟
روزے پر جھوٹ كا اثر
سوال: 93660
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر اس نے عمرہ پر جانے كى بنا پر چھٹى لى ہو اور حقيقت ميں وہ عمرہ پر نہ جانا چاہے تو يہ جھوٹ ميں شمار ہوتا ہے، اور اس كے نتيجہ ميں لى جانے والى رخصت صحيح نہيں، اس چھٹى كے ايام كى تنخواہ لينا حرام ہو گى، اس كے ليے حلال نہيں.
جس نے بھى ايسا كيا ہے اس كے ليے اللہ تعالى كے ہاں توبہ و استغفار كرنى ضرورى ہے، اور وہ اپنى ملازمت پر واپس جائے.
رہا اسكا نماز اور روزہ پر اثر انداز ہونا تو نماز اور روزہ صحيح ہيں، ليكن يہ اس كى دليل ہے كہ بندے نے نماز اور روزہ اس طرح ادا نہيں كيا جس طرح اللہ تعالى نے ادا كرنے كا حكم ديا ہے، كيونكہ اگر وہ بالكل اسى طرح نماز كى ادائيگى كرتا تو نماز اسے برائى اور غلط كاموں سے منع كرتى جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
نماز پابندى سے ادا كرو، يقينا نماز برائى اور بے حيائى كے كاموں سے روكتى ہے العنكبوت ( 45 ).
اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ جھوٹ و فراڈ اور دھوكہ اور سب و شتم وغيرہ يہ سب معاصى و گناہ اور برائى ہيں، اس سے روزہ دار كے اجروثواب ميں كمى پيدا ہوتى ہے.
كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص غلط باتيں اور ان پر عمل كرنا اور جہالت نہيں چھوڑتا تو اللہ كو اس شخص كے بھوكا اور پياسا رہنے كى كوئى ضرورت نہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6057 ).
اور طبرانى نے معجم طبرانى الصغير اور الاوسط ميں ان الفاظ كے ساتھ روايت كيا ہے:
" جو شخص بدزبانى اور جھوٹ نہيں چھوڑتا تو اللہ تعالى ك واس كے كھانا پينا چھوڑنے كى كوئى ضرورت نہيں "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب و الترھيب ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور قول زور كى تقسير جھوٹ كى گئى ہے، جو كہ روزہ دار كى جانب سے جھوٹ بولنے كى قباحت كى دليل ہے، اور اس كى دليل ہے كہ اس وجہ سے وہ اپنے روزہ كو رد كرنے اور قبول نہ ہونے كى طرف لے جا رہا ہے.
عون المعبود كے مصنف لكھتے ہيں:
" لم يدع " يعنى نہيں چھوڑتا
" قول الزور " اس سے مراد جھوٹ ہے.
" فليس للہ حاجۃ " ابن بطال كہتے ہيں: ا سكا معنى يہ نہيں كہ اسے روزہ ہى چھوڑ دينے كا حكم ديا گيا ہے، بلكہ ا سكا معنى تو يہ ہے كہ وہ جھوٹ وغيرہ سے روزہ كى حالت ميں اجتناب كرے…..
اور ابن منير كہتے ہيں: بلكہ يہ روزہ قبول نہ ہونے كا كنايہ ہے.
اور ابن عربى كہتے ہيں: اس حديث كا تقاضا ہے كہ اس شخص كو روزے كا ثواب نہيں ملے گا…..
اور اس حديث سے يہ استدلال كيا گيا ہے كہ اس طرح كے قبيح اعمال روزے كے ثواب ميں كمى پيدا كرتے ہيں " انتہى.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 50063 ) كے جواب كا بھى مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات