الہامی کتابوں پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟
آسمانی کتابوں پر ایمان کیا ہے؟
سوال: 9519
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الہامی کتابوں پر ایمان میں چار چیزیں شامل ہوتی ہیں:
پہلی چیز: تمام الہامی کتابوں کے متعلق یقینی ایمان کہ یہ سب کی سب اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ہیں، وہ تمام کتابیں اللہ تعالی کا حقیقی کلام ہیں، تو ان میں سے کچھ تو اللہ تعالی سے براہ راست پردے کے پیچھے سے فرشتے کے درمیان میں واسطے کے بغیر سنا گیا، اور کچھ کلام ایسا ہے جو فرشتے نے رسولوں تک پہنچایا ہے، اور کچھ ایسا کلام ہے جو اللہ تعالی نے خود اپنے ہاتھ مبارک سے لکھا ہے، ان کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْياً أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
ترجمہ: کسی بھی بشر کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالی اس سے کلام کرے، الا کہ وحی ہو، یا پردے کے پیچھے سے ہو یا اللہ تعالی فرشتے کو بھیجے اور وہ اللہ کے اذن سے اللہ تعالی کی چاہت کے مطابق وحی کرے، یقیناً وہ بلند و بالا اور حکمت والا ہے۔ [الشورى: 51]
ایسے ہی اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
وَكَلَّمَ اللهُ مُوْسى تَكْلِيْمًا
ترجمہ: اور اللہ تعالی نے موسی سے یقینی طور پر کلام فرمایا۔[النساء: 164]
اسی طرح اللہ تعالی نے تورات کے متعلق قرآن کریم میں فرمایا:
وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الأَلْوَاحِ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْعِظَةً وَتَفْصِيلاً لِكُلِّ شَيْءٍ
ترجمہ: اور ہم نے اس کے لیے تختیوں میں ہر چیز کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھ دی۔ [الأعراف:145]
دوسری چیز: ان کتابوں کے بارے میں جن تفصیلات کا ذکر اللہ تعالی نے فرمایا دیا ہے ان پر تفصیلی ایمان لانا واجب ہے، قرآن کریم میں جن الہامی کتابوں کا ذکر ہے وہ قرآن، تورات، انجیل، زبور، ابراہیم اور موسی علیہما السلام کے صحیفے ہیں۔
اور جن کتابوں کا ذکر اجمالی طور پر ہوا ہے تو ہم ان کے متعلق وہی کچھ کہیں گے جن کا اللہ تعالی نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ
ترجمہ: اور کہہ دے: میں اللہ کی نازل کردہ ہر کتاب پر ایمان لایا۔[الشورى:15]
تیسری چیز: جو باتیں ان الہامی کتب کی صحیح ہیں ان کی تصدیق کرنا، جیسے کہ قرآن کریم کی بتلائی ہوئی خبریں، اور سابقہ آسمانی کتب کی ایسی خبریں جن میں کسی قسم کی تبدیلی یا تحریف نہیں کی گئی۔
چوتھی چیز: اس بات پر یقین رکھنا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو ان تمام کتب پر حاکم اور ان کی تصدیق کرنے والا بنا کر نازل کیا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِناً عَلَيْهِ
ترجمہ اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے۔ [المائدة:48]
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ: { مُهَيْمِناً } کا مطلب ہے : سابقہ کتب سماویہ کی امین اور ان پر شاہد۔ { مُصَدِّقاً } یعنی: قرآن کریم ان کتب سماویہ میں موجود صحیح باتوں کی تصدیق کرتا ہے، اور ان میں جو تحریف، تبدیلی اور تغیر پیدا ہو گیا ہے اس کی نفی کرتا ہے، قرآن کریم ان تمام کتابوں کے منسوخ ہونے کا حکم بھی لگاتا ہے، یعنی قرآن کریم کی وجہ سے ان کتب کے احکامات کالعدم ہو گئے ہیں، یا فلاح انسانیت کے لیے قرآن کریم نے ان احکامات کی بجائے نئے احکامات بتلائے ہیں۔ لہذا جو بھی سابقہ کتب سماویہ پر ایمان رکھتا ہے اور وہ اسلام سے بغض بھی نہیں رکھتا وہ قرآن کریم کے سامنے اپنی جبین جھکائے ہوئے ہے، اسی کا ذکر اللہ تعالی نے کچھ یوں فرمایا:
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُون . وَإِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ مُسْلِمِين
ترجمہ: اس سے پہلے جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس قرآن پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور جب ان پر اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لائے؛ یقیناً یہ ہمارے رب کی جانب سے حق ہے، ہم تو اس سے پہلے بھی فرماں برادر ہی تھے۔[القصص: 52 -53]
-ساری امت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قرآن کریم کی ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے اتباع کریں، اسے مضبوطی سے تھام لیں، اور قرآن کریم کے حقوق ادا کریں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَهٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ترجمہ: اور یہ کتاب جو ہم نے نازل کی ہے بابرکت ہے، پس اسی کا اتباع کرو اور تقوی الہی اپناؤ، تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ [الانعام: 155]
قرآن کریم کو مضبوطی سے تھامنے اور قرآن کریم کے حقوق ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ: جس چیز کو قرآن حلال کہے اسے حلال سمجھیں، اور جس کو قرآن حرام قرار دے اسے حرام سمجھیں، قرآن کریم کے احکامات کے سامنے سرنگوں ہو جائیں، جن چیزوں سے روکا ہے ان سے رک جائیں، قرآن کریم کی بیان کردہ امثلہ سے عبرت حاصل کریں، قصص القرآن سے نصیحت پکڑیں، محکم آیات کو سیکھیں، متشَابہ آیات پر سرِ تسلیم خم کریں، قرآنی حدود سے تجاوز نہ کریں، قرآن کریم کا دفاع کریں، ان سب امور کے ہمراہ حفظ القرآن، تلاوتِ قرآن، قرآنی آیات پر تدبر، دن اور رات کے نوافل میں پڑھتے ہوئے قیام کریں ، قرآن کریم کے حق میں جو کچھ ہو سکتا ہے ہم کر گزریں، اور بصیرت پر رہتے ہوئے قرآن کریم کی طرف دعوت دیں۔
کتابوں پر ایمان کی وجہ سے انسان میں نہایت مثبت چیزیں رونما ہوتی ہیں، جن میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں:
1-اس بات کا یقین کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کا مکمل خیال فرماتا ہے اس لیے ہر قوم کے لیے رہنما کتاب اللہ تعالی نے نازل فرمائی۔
2-شریعت سازی میں اللہ تعالی کی حکمت پر یقین کہ اللہ تعالی نے ہر قوم کے لیے ان کے حالات کے مطابق متوازن احکامات ان کی شریعت میں شامل فرمائے، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ترجمہ: تم میں سے ہر امت کے لئے ہم نے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی ہے۔ [المائدہ: 48]
3-اس عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا۔
4-قرآن کریم کی تلاوت، تدبر، فہم اور ا س پر عمل کے ذریعے قرآن کریم کے حقوق ادا کرنا۔
واللہ اعلم
دیکھیں: " أعلام السنة المنشورة " (90 – 93 ) اور اسی طرح : ابن عثیمین رحمہ اللہ کی کتاب: "شرح الأصول الثلاثة "(91 ، 92 )
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات