"خاوند اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے، اور خاوند سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔" آپ یہ بتلائیں کہ خاوند کے پاس کس حد تک علم اور دینی تشخص ہونا چاہیے؟ مثال کے طور پر اگر بیوی یا بچوں کی طرف سے کوئی شرعی طور پر ممنوعہ کام کا ارتکاب کیا جاتا ہے تو کیا خاوند کو گناہ ہو گا؟ کیا وہ اللہ تعالی کی طرف سے سزا کا مستحق ٹھہرے گا؛ کیونکہ اس نے اپنی ذمہ داری کو اچھے انداز سے نہیں نبھایا اور بیوی بچوں کو غلطی کرنے سے پہلے نہیں سمجھایا تا کہ وہ غلطی کرتے ہی نہ ۔
خاوند کی اپنی بیوی اور اولاد سے متعلق ذمہ داری
سوال: 97142
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نیک خاوند کی خوبیاں اور امتیازی صفات جاننے کے لیے سوال نمبر: (5202 ) اور (6942 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
"خاوند اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے، اور خاوند سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔" یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہے، چنانچہ خاوند کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے، چنانچہ اگر کوئی خاوند اپنی اس ذمہ داری میں کوتاہی کا شکار ہو اور پھر بیوی یا بچے نافرمانی میں ملوث ہو جائیں تو خاوند گناہ گار ہو گا؛ کیونکہ اہل خانہ کی تعلیم و تربیت میں اس نے کوتاہی سے کام لیا ہے۔ اور اگر خاوند کوتاہی کا شکار نہیں تھا پھر بھی گھر کے کچھ افراد نافرمانی میں ملوث ہو گئے تو اب خاوند کو گناہ نہیں ہو گا، تاہم خاوند کی ذمہ داری بنتی ہے کہ گناہ میں ملوث ہونے پر انہیں سمجھائے ، تا کہ گناہ اور شرعی مخالفت سے باز آ جائیں ۔
شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"جب بچے اچھے برے کی تمیز کرنے لگ جائیں تو بچوں کی سب سے پہلے دینی تربیت کرے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو ، اور 10 سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں سزا دو، اور ان کے بستر الگ الگ کر دو ) اس حدیث کو ابو داود نے روایت کیا ہے، اور یہ صحیح روایت ہے۔
بچہ جس وقت سمجھدار ہو جائے تو والد سے کہا جائے گا کہ بچے کو تعلیم دے اور اس کی اچھی تربیت کا اہتمام کرے، چنانچہ قرآن کریم کی تعلیم دلوائے، منتخب احادیث بھی پڑھائے، بچے کی عمر کی مناسبت سے شرعی احکام بھی سکھائے، بچے کو وضو کا طریقہ اور نماز کا طریقہ سکھائے، سونے اور جاگنے کے اذکار یاد کروائے، کھانے پینے کی دعائیں یاد کروائے؛ کیونکہ جب بچہ سن تمیز کو پہنچتا ہے تو اسے کام کرنے اور کام سے رکنے کا علم ہوتا ہے، چنانچہ بچے کو غیر مناسب چیزوں سے روکے، واضح کرے کہ اس کے لیے جھوٹ اور چغلی وغیرہ جیسے برے کام کرنا جائز نہیں ہے۔ بچپن سے ہی اچھی باتوں کو اپنائے اور بری باتوں سے بچے یہ بہت ہی ضروری چیز ہے، کچھ لوگ بچپن میں بچوں پر توجہ نہیں دیتے۔
لوگ اس عمر میں اپنے بچوں کا خیال نہیں رکھتے، انہیں صحیح بات نہیں سمجھاتے، نہ ہی انہیں نماز کا کہتے ہیں، نہ ہی اچھی چیزوں کی عادت ڈالتے ہیں، بلکہ بچوں کو کچھ سکھایا ہی نہیں جاتا، اور اس طرح بری عادتیں بچوں میں آ جاتی ہیں، برے دوستوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، گلیوں میں گھومتے پھرتے ہیں، سکول سے چھٹی کر لیتے ہیں اور دیگر اسی طرح کی منفی سرگرمیوں میں سر گرداں رہتے ہیں، کیونکہ ان کے والدین ان پر توجہ نہیں دیتے، حالانکہ والدین سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے ان پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو ، اور 10 سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں سزا دو، اور ان کے بستر الگ الگ کر دو) اس حدیث میں والد کو حکم دیا گیا ہے، چنانچہ جو والد اپنے بچوں کو نماز کا نہیں کہتا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نافرمانی کا ارتکاب کر رہا ہے، حرام کام میں ملوث ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے لازم کیا گیا واجب کام ترک کر رہا ہے۔
حالانکہ بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔) لیکن کچھ لوگ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اپنے دنیاوی معاملات میں اتنے مگن ہیں کہ اپنے بچوں پر بالکل توجہ نہیں دیتے، نہ ہی انہیں وقت دیتے ہیں، کیونکہ اس نے سارا وقت ہی دنیاوی کاموں کے لیے خاص کیا ہوا ہے، اور یہ بہت ہی خطرناک بات ہے، مسلم ممالک میں یہ خرابی بڑھتی چلی جا رہی ہے، بچوں کی تربیت پر اس کے بہت ہی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اور حالت اس حد تک بگڑ گئی ہے کہ مسلمان بچے دینی یا دنیاوی کسی بھی اعتبار سے با صلاحیت نہیں ہیں۔ ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم " ختم شد
" المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان " ( 5 / 297، 298 ، سوال نمبر: 421)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات