0 / 0

کلملۃ لو (اگر) استعمال کرنے کا حکم

سوال: 11010

کسی نے سنا کہ ایک شخص یہ کہہ رہا تھا کہ (لو) اگر آپ ایسے کرتے تو آپ کے ساتھ یہ معاملہ نہ ہوتا تو دوسرے شخص نے یہ بات سن کر کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور یہ ایسا کلمہ ہے اس کا قائل کفر تک چلا جاتا ہے تو دوسرے آدمی نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موسی علیہ السلام کا بیان کرتے ہوئے فرمایا :
(اللہ تعالی موسی علیہ السلام پر رحم فرمائے میری تمنا ہے اگر وہ صبر کرتے حتی کہ اللہ تعالی ان دونوں کا معاملہ ہمارے لئے بیان فرماتا) تو دوسرے نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے استدلال کیا کہ (اللہ تعالی کو طاقت ور مومن کمزور مومن سے زیادہ محبوب ہے حتی نے یہ بات کہی کہ بیشک کلمہ لو (اگر) شیطان کا دروازہ کھولتا ہے) تو کیا یہ اسکا ناسخ ہے یا کہ نہیں۔؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی فرمایا ہے وہ سب حق ہے اور۔۔ لو (۔اگر) یہ دو طرح سے استعمال ہوتا ہے۔

پہلی وجہ- گزری ہوئی چیز پر بطور غم یا پھر ایسے معاملہ جس کی قدرت تھی اور وہ گزرگیا جسے وہ کر نہ سکا تو اس پر بطور بے صبری یہ لفظ بولنا۔ تو یہ ہے وہ جس سے منع کیا گیا ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔

"اے ایمان والو تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے کفر کیا اور اپنے بھا‏ئیوں کے حق میں جبکہ وہ سفر میں ہوں یا جہاد میں ہوں کہا کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ ہی مرتے اور نہ قتل کئے جاتے اس کی وجہ یہ تھی کہ اس خیال کو اللہ تعالی ان کی دلی کا سبب بنادے"

تو یہ وہ ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ جیسا کہ انکا قول ہے۔ (اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچے تو یہ نہ کہو کہ اگر (لو) میں اس طرح کرلیتا تو ایسا ہوجاتا لیکن یہ کہو کہ اللہ تعالی نے جو چاہا کردیا۔ کیونکہ اگر (لو) یہ شیطان کا عمل کھول دیتا ہے) یعنی آپ پر غم اور افسوس اور بے صبری کھول دے گا۔ اور یہ نقصان دہ نہ کہ نفع مند بلکہ آپ یہ جان لیں کہ جو آپ کو پہنچنے والا ہے وہ آپ سے غلطی نہیں کرے گا اور جو آپ سے چوک جائے وہ آپ کو ملنے والا نہیں ہے۔

جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔

"کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اسکے دل کو ہدایت دیتا ہے"

مفسرین نے کہا کہ وہ آدمی ہے جسے کوئی مصیبت پہنچے تو وہ یہ جانتے ہوئے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اس پر راضی ہو اسے تسلیم کرے۔

دوسری وجہ: یہ کہ کلمہ (لو) اگر نفع مند علم کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔

"اگر آسمان وزمین میں اللہ کے علاوہ اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے"

اور یا پھر خیر کی محبت اور اسکے ارادہ سے بولا جائے۔ جیسا کہ: اگر میرے پاس بھی فلاں کی طرح ہوتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا جس طرح وہ کررہا ہے۔ اور اس طرح تو یہ جائز ہے۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول کہ:

(میری تمنا ہے کہ اگر موسی علیہ السلام صبر کرتے حتی کہ اللہ تعالی ان دونوں کا معاملہ ہمارے لئے بیان فرماتا)

یہ بھی اسی باب سے ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔

"انکی خواہش ہے کہ اگر آپ نرمی اختیار کریں تو وہ بھی نرم ہوجائیں"

بیشک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند فرمایا کہ اللہ تعالی انکے قصہ کو بیان فرمائے تو آپ نے اسے صبر کی محبت کی بنا پر بیان کیا جو کہ اس پر مرتب ہوتی ہے تو اس میں جو منفعت تھی اسے جانتے ہوئے آپ نے یہ فرمایا اور اس لئے نہیں کہ اس پر کوئی بے صبری اور غم وافسوس اور نہ ہی صبر کی قدرت رکھتے ہوئے اسے چھوڑنے پر بولا ہے

واللہ تعالی اعلم  .

ماخذ

دیکھیں کتاب: مجموع الفتاوع الکبری لابن تیمیۃ9/1033

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android