سلفی علمائے کرام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کا وسیلہ دینے سے کیوں منع کرتے ہیں، حالانکہ تمام علمائے کرام اسے متفقہ طور پر جائز کہتے تھے یہاں تک کہ ابن تیمیہ جب آئے تو انہوں نے سب سے پہلے اسے حرام قرار دیا، واضح رہے کہ تمام مذاہب کے علمائے کرام اس وسیلے کو جائز قرار دیتے ہیں، تو سلفی علمائے کرام اسے حرام قرار دینے پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟
کچھ اہل علم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جاہ و جلال کا وسیلہ دینے سے کیوں منع کرتے ہیں؟
سوال: 114142
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ: دعا کرنے والا اللہ تعالی سے ہی دعا مانگے لیکن اپنی دعا کی قبولیت کیلیے وسیلہ دیتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا تذکرہ کرے ، یا اپنی حاجت کے جلدی پورا ہونے کیلیے کہے: "اے اللہ! میں تجھ سے نبی کا وسیلہ دے کر مانگتا ہوں" یا کہے: "میں تجھ سے نبی کی شان کا وسیلہ دے کر مانگتا ہوں" یا اسی طرح کی کوئی اور بات کہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوى (1/337-338) میں کہتے ہیں:
" غیر اللہ کا وسیلہ دے کر اللہ تعالی سے مانگنے والا یا تو اللہ تعالی پر غیر اللہ کی قسم ڈال رہا ہو گا، یا اس وسیلے کے واسطے سے اپنی حاجت روائی کا متمنی ہو گا جیسے کہ غار میں پھنس جانے والے تین افراد نے اپنے نیک اعمال کا اللہ تعالی کو واسطہ دیا اور اسی طرح انبیائے کرام اور نیک لوگوں سے دعا کروانا بھی وسیلے میں شامل ہے۔
چنانچہ اگر اللہ تعالی پر غیر اللہ کی قسم ڈالی جائے تو یہ جائز نہیں ہے۔
لیکن اگر اپنی حاجت روائی کیلیے کسی نیکی کا واسطہ دیں مثال کے طور پر کسی ایسے عمل کا واسطہ دیں جس میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت عیاں ہوتی ہو جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے یا آپ سے محبت اور تعلق وغیرہ کو وسیلہ بنائے تو یہ جائز ہے۔
اور اگر انبیائے کرام اور نیک لوگوں کی ذات کا وسیلہ ہو تو یہ شرعی عمل نہیں ہے، اس عمل سے متعدد علمائے کرام نے منع کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ جائز نہیں ہے، جبکہ کچھ اہل علم نے اس میں رخصت رکھی ہےتاہم پہلا موقف ہی راجح ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے؛ کیونکہ اس طرح ایسے وسیلے کے ذریعے دعا مانگی جا رہی ہے جو حاجت روائی کا سبب نہیں بن سکتا۔
جبکہ دوسری جانب ایسے وسیلے کے ذریعے دعا مانگی جائے جو حاجت روائی کا سبب بن سکتا ہے جیسے کہ اللہ تعالی سے نیک لوگوں کی دعا کے ذریعے مانگا جائے یا نیک اعمال کا واسطہ دے کر مانگا جائے تو یہ جائز ہے؛ کیونکہ نیک لوگوں کی دعا حاجت روائی کا سبب ہے۔ اسی طرح نیک اعمال اللہ تعالی سے حصولِ ثواب کا باعث ہیں، لہذا اگر ہم نیک لوگوں کی دعا اور اپنے نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالی سے مانگیں تو اس طرح ہم شرعی وسیلہ اپنانے والے شمار ہوں گے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کی جانب وسیلہ تلاش کرو۔ [المائدة:35] اور یہاں پر وسیلے سے مراد نیک اعمال ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے ایک اور مقام پر فرمایا:
( أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ)
ترجمہ: یہی لوگ ہیں جو اللہ کو پکارتے ہیں اور اپنے رب کی جانب وسیلہ تلاش کرتے ہیں۔[الإسراء :57]
چنانچہ اگر ہم اللہ تعالی کی جانب نیک لوگوں کی دعا یا اپنے ذاتی نیک اعمال کا وسیلہ نہ بنائیں بلکہ نیک لوگوں کی ذات کو وسیلہ بنا کر پیش کریں تو یہ ایسا سبب نہیں ہے جس کی وجہ سے ہماری مرادیں پوری ہوں، بلکہ ہم ایسی چیز کو وسیلہ بنائیں گے جو وسیلہ بننے کے قابل ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی صحیح حدیث میں منقول نہیں ہے اور نہ ہی یہ چیز سلف کے ہاں مشہور تھی" انتہی
دوم:
اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہے، جیسے کہ سلفی علمائے کرام پر قدغن لگانے والے موشگافیاں کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے ہمنوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو کم کرتے ہیں اور آپ کی شان میں –نعوذ باللہ-گستاخیاں کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسی بات نہیں سلفی علمائے کرام ایسی نازیبا حرکتوں سے کوسوں دور ہیں، سلفی علمائے کرام کے ہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود پر سرفراز کیا جائے گا، آپ کو بلند مرتبے پر فائز کیا جائے گا، آپ اولادِ آدم کے سربراہ ہیں، تاہم آپ کے اتنے بلند مقام و مرتبے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ سے مرادیں مانگی جائیں اور آپ کی ذات کا وسیلہ دیا جائے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس [ثواب]کو بندوں کا حق بتلایا ہے تو وہ واقعی ان کا حق ہے؛ لیکن یہاں مسئلہ اس [ثواب]کے وسیلے سے دعا مانگنے کے طریقے کا ہے، تو اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ: اگر جس چیز کا واسطہ دے کر بندے نے مانگا ہے وہ واقعی وسیلہ بننے کے قابل ہے تو اس وسیلے کا واسطہ دے کر مانگنا اچھا عمل ہو گا، مثال کے طور پر تمام شرعی وسیلوں [اللہ کے اسما و صفات کا وسیلہ، نیک آدمی سے دعا کروانا، اور اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنانا]کے ذریعے دعا مانگنا۔
لیکن اگر کوئی دعا مانگنے والا کہے: "مجھے فلاں اور فلاں کے طفیل عطا فرما" تو اگر ان لوگوں کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی حق ہوا کہ اللہ تعالی انہیں عذاب نہ دے اور انہیں مکمل ثواب سے نوازے، ان کے درجات بلند فرمائے جیسے کہ اللہ تعالی نے ان سے اس [ثواب]کا وعدہ کیا ہوا ہے اور خود اللہ تعالی نے اپنے آپ پر لازم قرار دیا ہوا ہے، تو ان تمام ثواب و اکرام کی بدولت ان لوگوں کے طفیل اللہ سے مانگنے والے کیلیے کچھ نہیں ہو گا کہ نیک آدمی کو ملنے والے ثواب و اکرام کی وجہ سے اس سائل کی مراد پوری ہو سکے؛ کیونکہ ان نیک لوگوں کو جو کچھ بھی ملا ہے وہ ان کے ایمان و نیکی کے بدلے میں ملا ہے ، لیکن یہ سائل تو اس ثواب و اکرام کا مستحق نہیں ہے؛ چنانچہ ایک [بے عمل] شخص کی طرف سے [نیک ]لوگوں کا وسیلہ دینا دعا کی قبولیت کا ضامن نہیں ہو سکتا۔
اور اگر کوئی کہے کہ : اصل وسیلہ اور طفیل تو اس نیک شخص کی شفاعت اور دعا کا ہے، [اگر ایسا ہی ہے کہ] اس نیک شخص نے اس کیلیے شفاعت یا دعا کی ہے تو یہ صحیح اور حق ہے، لیکن اگر اس نیک شخص نے اس کیلیے شفاعت یا دعا نہیں کی تو پھر محض ذات کا وسیلہ دینا قبولیت دعا کا سبب نہیں بن سکتا" انتہی
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوى (1/278) میں مزید کہتے ہیں:
"یہ بات مسلّمہ ہے کہ اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کہے: "یا اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت میرے بارے میں قبول فرما اور میری دعا ان کے بارے میں قبول فرما" حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیلیے کوئی دعا ہی نہیں فرمائی، تو اس کی یہ بات بالکل باطل ہو گی" انتہی
سوم:
اس مسئلے کو سمجھنے کیلیے پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ دعا عبادت ہے، بلکہ دعا اللہ تعالی کے ہاں عظیم ترین عبادات میں سے ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دعا عبادت ہے، تمہارے رب کا فرمان ہے: تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا) ابو داود: (1479) وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عبادات کی بنیاد دلیل پر ہوتی ہے، یعنی جس عبادت کے طریقے کے متعلق دلیل موجود ہو گی وہ عبادت صرف اسی انداز سے کی جائے گی، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی [عبادت] ایجاد کی جو پہلے اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے) بخاری: (2697) اور مسلم (1718) نے اسے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، جبکہ مسلم کے الفاظ یہ بھی ہیں کہ: (جو شخص ایسا کام کرتا ہے جس کا حکم ہم نے نہیں دیا تو وہ مردود ہے)
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل لغت نے حدیث کے عربی لفظ: " الرَّدّ"کا مردود کیا ہے، مردود کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل باطل ہو گا اسے کسی کھاتے میں شمار نہیں کیا جائے گا۔
اس حدیث میں اسلام کا ایک عظیم اصول اور ضابطہ بھی ہے، یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے گئے جوامع الکلم میں سے ہے؛ کیونکہ یہ حدیث تمام بدعات اور خود ساختہ عبادات کو یک لخت مسترد کر دیتی ہے۔
دوسری روایت میں ایک مزید اضافہ بھی ہے کہ کوئی ایسا شخص جس نے خود بدعت ایجاد نہ کی ہو بلکہ کسی نے پہلے سے ایجاد کی ہو اور وہ صرف اس کی اندھی تقلید میں ہٹ دھرمی کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہو اور کہے کہ[پہلی ]روایت میں یہ ہے کہ "جو عبادت ایجاد کرے "اور میں نے ایجاد نہیں کی ایجاد تو مجھ سے پہلے ہو چکی تھی اس لیے میں اس حدیث کا مصداق نہیں بنتا تو اسے دوسری روایت سنائی جائے گی جس میں تمام بدعات کو مسترد کیا گیا ہے، عمل کرنے والے نے خود وہ بدعت ایجاد کی ہو یا ایجاد تو پہلے کسی نے کی ہو لیکن وہ اس پر کار بند ہے۔
اس حدیث میں ان اصولی علمائے کرام کی دلیل بھی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ: جس کام سے ممانعت کی گئی ہو تو اس ممانعت کا تقاضا ہے کہ وہ کام فاسد اور بے کار ہو جائے ، لیکن جو ممنوعہ کام کے فاسد ہونے کو نہیں مانتے وہ اس حدیث کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ "خبرِ واحد" ہے، اور خبر واحد سے اتنا اہم اور بنیادی اصول اخذ نہیں ہو سکتا۔ حقیقت میں ان کا یہ جواب ہی درست نہیں ہے۔ لہذا اس حدیث کو یاد کر کے بدعات کے رد کیلیے نشرِ عام کرنا چاہیے" انتہی
جب ہم نے یہ اصول سمجھ لیا کہ ہم اللہ تعالی کی عبادت کے طور پر صرف وہی کام کر سکتے ہیں جو کہ غلطی سے مبرّا ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں ملے، اس میں ہماری یا کسی اور کی ایجاد شدہ کسی عبادت کو یا عبادت کے طریقے کو شامل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاوى (1/265) میں کہتے ہیں:
"کسی بھی چیز کو شرعی دلیل کے بغیر واجب یا مستحب قرار دینا جائز نہیں ہے، صرف ایسی شرعی دلیل کے ذریعے ہی کسی چیز کو واجب یا مستحب قرار دیا جا سکتا ہے جو عمل کے واجب یا مستحب ہونے کا تقاضا کرے، اور حقیقت یہ ہے کہ عبادات ہمیشہ واجب یا مستحب ہوتی ہیں، چنانچہ اگر کسی عبادت کا حکم واجب یا مستحب نہیں ہے تو پھر وہ چیز عبادت ہی نہیں ہے، اللہ تعالی سے دعا مانگنا بھی عبادت ہے بشرطیکہ دعا میں کسی جائز چیز کا مطالبہ ہو" انتہی
اسی طرح انہوں نے مجموع الفتاوى (1/278) میں وسیلے سے متعلق ایک لمبی بحث کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ:
"[عثمان عتبیہ نے سائل کو ] نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعا نہیں سکھلائی، بلکہ جو دعا سکھلائی تھی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں تھی، چنانچہ ایسی باتوں سے شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے، اس کی مثال میں وہ تمام امور شامل ہیں جن کا تعلق عبادات ، مباح امور ، یا واجبات یا محرمات سے ہے اور ان کے بارے میں صحابی کے انفرادی موقف کی تائید کسی دوسرے صحابی نے نہیں کی ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ احادیث صحابی کی انفرادی رائے سے متصادم ہو موافقت نہ کرے ، تو ایسے امور میں صحابی کی بات پر عمل کرنا مسلمانوں پر واجب نہیں ہو گا، زیادہ سے زیادہ اس کی حیثیت یہ ہو گی کہ اس میں اجتہاد کی گنجائش ہو، اور اس مسئلے کا تعلق ایسے مسائل سے ہو جن کے بارے میں امت مختلف رائے رکھتی ہے، تو ایسی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کے طریقے کی جانب رجوع کرنا لازمی اور ضروری ہو گا، اور اس کی متعدد مثالیں ہیں"
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"ایک مسلمان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہے، اور وہ اپنی دعا میں کہتا ہے: "یا اللہ! مجھے دنیا و آخرت کی فلاں فلاں بھلائی عطا فرما، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے صدقے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کے صدقے، یا مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کے طفیل یا شیخ تیجانی کی شان کے صدقے یا شیخ عبد القادر کی برکت کے وسیلے سے یا شیخ سنوسی کے احترام کے صدقے عطا فرما" تو ایسے شخص کا کیا حکم ہے؟"
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"جو شخص اپنی دعا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان، احترام، برکت، یا دیگر نیک لوگوں کی شان، احترام یا برکت کا وسیلہ دیتے ہوئے کہے: "یا اللہ! اپنے نبی کی شان، احترام اور برکت کے صدقے مجھے مال ، اولاد عطا فرما، مجھے جنت میں داخلہ نصیب فرما، اور مجھے جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما" یا اسی طرح کی کوئی اور بات کرتا ہے تو یہ شخص مشرک نہیں ہے کہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے، تاہم یہ عمل شرک کے سد باب کیلیے ممنوع قرار ہو گا تا کہ مسلمانوں کو ایسے امور سے دور رکھا جائے جن کی وجہ سے شرک میں ملوث ہونا ممکن ہو۔
یہ بات یقینی ہے کہ انبیائے کرام اور صالحین کی شان کو وسیلہ بنانا ایسے وسائل میں سے ہے جن کی وجہ سے انسان وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے، تاریخی حقائق اور تجربات ہمیں یہی بتلاتے ہیں۔
دوسری جانب کتاب و سنت میں ایسے قطعی دلائل موجود ہیں جو کہ شرک کے وسائل اور اسباب سے روکتے ہیں نیز اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ شرک اور حرام امور سے روکنا شریعت کے مقاصد میں سے ہے، انہی دلائل میں یہ آیت بھی شامل ہے:
( وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) ترجمہ: تم اس غیر اللہ کو برا بھلا مت کہو جن کو وہ پکارتے ہیں ، مبادا وہ دشمنی میں آ کر جہالت کی وجہ سے اللہ کو گالی دیں، ہم نے اسی طرح تمام امتوں کیلیے ان کے اعمال مزین کر دیے ہیں پھر ان کا اپنے پروردگار کی طرف ہی لوٹنا ہے، تو اللہ تعالی انہیں ان کاموں کی خبر دے گا جو وہ کرتے رہے ہیں۔[الأنعام :108]
تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو مشرکین کے معبودانِ باطلہ کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا حالانکہ وہ معبودانِ باطلہ ہیں، تا کہ مشرکین اپنے معبودانِ باطلہ کی طرف داری اور بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالی کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال نہ کریں۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر مسجدیں بنانے سے منع فرمایا؛ تا کہ بعد میں ان قبروں کی پرستش نہ ہونے لگ جائے۔
ایسے ہی کسی بھی مرد کو اجنبی خاتون کے ساتھ تنہائی میں جانے سے منع فرمایا ، اسی طرح عورتوں کیلیے مردوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار حرام قرار دیا۔۔۔[اور بھی اس کی بہت سی مثالیں ہیں]
ویسے بھی دعا کرتے ہوئے کسی کی شان یا احترام کا وسیلہ عبادت میں شمار ہوتا ہے اور عبادت کا طریقہ کار توقیفی ہوتا ہے [یعنی شریعت عبادت کا طریقہ متعین کرتی ہے، خود سے طریقہ متعین نہیں کیا جا سکتا] چنانچہ قرآن مجید یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام وغیرہ سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے جو دعا میں مذکورہ قسموں کے وسیلے کیلیے گنجائش پیدا کرتی ہو، تو اس سے معلوم ہوا کہ ایسا وسیلہ بدعت ہے" انتہی
فتاوى اللجنة الدائمة (1/501-502)
چہارم:
سائل نے اپنے سوال میں کہا ہے کہ ابن تیمیہ نے سب سے پہلے اسے حرام قرار دیا، یہ بات صحیح نہیں ہے، سائل نے یہ بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دشمنوں سے لی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو اخنائی کا رد کرتے ہوئے اس الزام کا سامنا کرنا پڑا تھا، اخنائی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا سخت مخالف تھا اور مذکورہ الزام تراشی کرنے والوں میں سے ایک تھا، چنانچہ اخنائی کا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں کہنا تھا کہ: "اس موقف کے حامل شخص [ابن تیمیہ] نے کتنے مسائل میں اجماع کو توڑا ہے" تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ ان کے اس الزام کا کئی اعتبار سے جواب دیا، چنانچہ اس ضمن میں آپ کہتے ہیں:
"چھٹی وجہ: کسی شخص کا یہ الزام دینا کہ فریق ثانی اجماع کی مخالفت کر رہا ہے، یہ اس وقت قبول ہو گا جب وہ شخص ایسے لوگوں میں شمار ہو جسے اجماعی اور اختلافی مسائل کے بارے میں علم ہو، اور اس کیلیے بہت زیادہ علم کی ضرورت ہوتی ہے تب کہیں جا کر اجماعی اور اختلافی مسائل کے مابین فرق حاصل ہوتا ہے، لیکن نکتہ اعتراض اٹھانے والے کے پاس اتنا علم کہاں سے آیا؟ جسے اپنے مذہب کے بارے میں ہی علم نہیں ہے اور نہ ہی اپنے مذہب کے علمائے کرام کی آراء جانتا ہے، اس کا مسلمانوں کے اجماعی مسائل کے متعلق اس کا کیا کام!؟مزید برآں وہ شخص معرفتِ احادیث اور استدلال کرنے میں انتہائی کمزور اور ناتواں ہے!؟
ساتویں وجہ: فریق ثانی کی جانب سے "کتنے مسائل میں اجماع کو توڑا ہے" کا لفظ بولا گیا ہے، جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جواب دینے والے نے بہت سے مسائل میں اجماع توڑا ہے، لیکن اس اعتراض کی حقیقت یہ ہے کہ اعتراض لگانے والے سے کہیں بڑے اہل علم نے خوب محنت اور تگ و دو دی لیکن ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ڈھونڈ سکے جس میں جواب دینے والے [ابن تیمیہ] نے کسی اجماع کو توڑا ہو، زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ اعتراض لگانے والوں نے کسی مسئلے کے بارے میں یہ سمجھ لیا کہ اس مسئلے میں اجماع ہے حالانکہ اس مسئلے پر اجماع نہیں تھا، جیسے کہ انہیں طلاق معلق کے بارے میں مغالطہ لگا [اور ابن تیمیہ کے مخالفین نے انہیں اجماع مخالف قرار دیا]، حالانکہ اس مسئلے میں نصوص، فقہی امور اور احادیث ان کے مخالف تھیں، یہ الگ بات ہے کہ انہیں ان نصوص کا علم نہیں تھا۔
آٹھویں وجہ: جواب دینے والے [یعنی: شیخ الاسلام ابن تیمیہ] نے -الحمد اللہ- کبھی بھی کوئی ایسا موقف اختیار نہیں کیا جس کے مطابق ان سے پہلے علمائے کرام کی رائے موجود نہ ہو، اگرچہ کچھ مسائل ذہن میں آتے تھے اور اس کے دلائل بھی ذہن میں ہوتے تھے لیکن پھر بھی انہیں اس وقت تک زبان پر نہیں لاتے تھے جب تک اس کے مطابق انہیں سلف سے موقف نہیں مل جاتا تھا، بعینٖہ امام احمد نے بھی یہی کہا تھا: "خبردار ! کوئی ایسی بات نہ کرنا جس میں تمہیں سلف سے تائید حاصل نہ ہو" لہذا اگر کسی شخص کا یہ منہج ہے اور وہ اسی پر کار بند بھی ہے وہ ایسی بات کیسے کر سکتا ہے جس میں مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت ہو، وہ تو بات ہی ایسی کرتا ہے جس میں سلف صالحین کی اسے تائید حاصل ہو" انتہی
ماخوذ از: "الرد على الأخنائي" (457-458)
پنجم:
مذکورہ جس مسئلے میں سائل نے کسی کے پیچھے لگتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں اجماع توڑا ہے، اسی مسئلے کے بارے میں متعدد علمائے کرام کی صراحتیں اور نصوص موجود ہیں ، خصوصی طور پر علمائے احناف کی جانب سے اس کی ممانعت بہت ہی شد و مد کے ساتھ کی گئی ہے۔
چنانچہ علامہ حصکفی رحمہ اللہ "الدر المختار" (5/715) میں لکھتے ہیں:
"صاحب فتاوی تاتارخانیہ نے منتقی کی جانب نسبت کرتے ہوئے ابو یوسف کے واسطے سے ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ: دعا میں اللہ تعالی کو واسطہ صرف انہی [اسما و صفات] کا دینے کی گنجائش ہے، چنانچہ جس دعا کی اجازت ہے اور جس طرزِ دعا کا حکم دیا گیا ہے وہ اللہ تعالی کے اس فرمان سے کشیدہ ہوتا ہے:
وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا
ترجمہ: اور اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، انہی کے واسطے سے اللہ تعالی کو پکارو۔[الأعراف: 180]
یہی عبارت "المحیط البرہانی" (5/141) میں بھی موجود ہے۔
اسی طرح علامہ کاسانی رحمہ اللہ "بدائع الصنائع" (5/126) میں لکھتے ہیں:
"انسان کیلیے دعا میں یہ کہنا مکروہ ہے "یا اللہ! میں تجھ سے تیرے انبیاء، رسولوں اور فلاں فلاں شخص کے حق کا واسطہ دے کر مانگتا ہوں" کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی پر کسی کا حق نہیں ہو سکتا"
یہ عبارت "تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق" از علامہ زیلعی: (6/31) میں بھی ہے ، نیز زیلعی رحمہ اللہ نے اس بات کی نسبت ائمہ ثلاثہ یعنی ابو حنیفہ اور آپ کے دونوں شاگرد یعنی: ابو یوسف اور محمد بن حسن تینوں کی طرف کی ہے۔
یہی گفتگو اور موقف احناف کی مایہ ناز کتب مثلاً: "العناية شرح الهداية"از بابرتی: (10/64) ، "فتح القدير"از: ابن ہمام : (10/64) ، "درر الحكام" (1/321) اور "مجمع الأنهر شرح ملتقى الأبحر"(2554) میں بھی موجود ہے۔
شید نعمان خیر الدین آلوسی حنفی رحمہ اللہ جلاء العينين (516-517) میں کہتے ہیں:
"[علمائے احناف کی] تمام نصوص میں ہے کہ: دعا کرتے ہوئے وسیلہ دینے کیلیے جو شخص کہتا ہے: انبیاء اور اولیاء کے حق کے وسیلے، بیت اللہ شریف اور مشعر الحرام کے حق کے وسیلے سے [میری دعا قبول فرما، یا میری مراد پوری فرما] تو یہ مکروہ تحریمی ہے، اور مکروہ تحریمی کا درجہ امام محمد کے ہاں حرام کے مساوی ہے اور اس کی سزا بھی حرام کام کی طرح آگ ہی ہے، اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ: مخلوق کا خالق پر کوئی حق ہی نہیں ہے" انتہی
مزید کیلیے آپ سید نعمان کی نقل کردہ وہ تمام عبارتیں دیکھیں جو انہوں نے علامہ سویدی شافعی سے بیان کی ہیں، دیکھیں: جلاء العينين (505) اور اس کے بعد والے صفحات۔
ہم امید کرتے ہیں کہ سابقہ تفصیلی اقتباسات سے واضح ہو گیا ہے کہ سلفی علمائے کرام وسیلے کی اس قسم سے کیوں منع کرتے ہیں؟ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پہلے عالم نہیں ہیں جنہوں نے وسیلے کی اس قسم کو منع قرار دیا ، اور وہ اس موقف کے قائل آخری اہل علم بھی نہیں ہیں۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (979) ، (60041) اور (23265) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات