ايك عورت دريافت كرنا چاہتى ہے كہ آيا اس پر رمضان كے روزوں كى قضاء اور فديہ دونوں ہيں، يا كہ وہ سارے روزوں كى قضاء كرنے كے بعد ايك ہى بار سب ايام كا فديہ اكٹھا ادا كر دے ؟
قضاء سے قبل روزوں كى قضاء ميں تاخير كا فديہ دينے كا حكم
سوال: 122319
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر كسى شخص نے رمضان المبارك كے روزوں كى قضاء ميں تاخير كر دى حتى كہ دوسرا رمضان شروع ہوگيا اگر تو يہ عذر يعنى بيمارى يا حمل يا دودھ پلانے كى وجہ سے ہو تو روزوں كى قضاء كے علاوہ كچھ نہيں، ليكن اگر عذر كے بغير ہو تو پھر وہ گنہگار ہے اور اس كے ذمہ قضاء ہوگى.
ليكن اس پر فديہ كے بارہ ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے جمہور علماء كرام تو اس پر فديہ لازم كرتے ہيں يعنى وہ ہر دين كے بدلے مسكين كو كھانا دے.
اس كے بارہ ميں تفصيل ہم سوال نمبر ( 26865 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں كہ راجح يہى ہے كہ فديہ لازم نہيں آتا، ليكن اگر بطور احتياط ادا كرتا ہے تو يہ بہتر ہے، اس كا مطالعہ كريں.
جو علماء فديہ دينے كا كہتے ہيں ان كے ہاں يہ فديہ دوسرا رمضان شروع ہونے پر ہى لاگو ہو جائيگا، اس ليے چاہے تو وہ شخص اسى وقت فديہ ادا كر دے، اور چاہے تو روزوں كى قضاء كرنے كے بعد ادا كرے، ليكن افضل يہى ہے كہ برى الذمہ ہونے كے ليے جلدى ادا كر دے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے كہ:
" رمضان كى قضاء تراخى يعنى دير ميں ہے، ليكن جمہور علماء كرام اسے مقيد كرتے ہيں كہ جب اس كى قضاء كا وقت نہ جاتا رہے، وہ يہ كہ دوسرا رمضان نہ شروع ہو بلكہ اس سے پہلے پہلے رمضان كى قضاء كے روزے ركھنا ہونگے.
كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" ميرے ذمہ رمضان المبارك كے روزے ہوتے تو ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مقام كى وجہ سے شعبان كے علاوہ ان روزوں كى قضاء نہيں كر سكتى تھى "
جيسا كہ پہلى نماز دوسرى سے مؤخر نہيں كى جا سكتى.
اور جمہور علماء كے ہاں بغير كسى عذر كے پہلے رمضان كى قضاء دوسرے رمضان تك مؤخر كرنا جائز نہيں؛ اس ليے كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث سے يہى ثابت ہوتا ہے.
ليكن اگر كوئى اسے مؤخر كر ديتا ہے تو اس كے ذمہ فديہ ہوگا يعنى ہر روزے كى قضاء كے ساتھ وہ ايك مسكين كو كھانا بطور فديہ ادا كريگا، كيونكہ ابن عباس اور ابن عمر اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم سے يہى مروى ہے انہوں نے رمضان كے روزں كى قضاء دوسرے رمضان تك ادا نہ كرنے والے كے متعلق يہى فرمايا ہے.
" اس پر قضاء اور ہر روزے كے بدلے بطور فديہ ايك مسكين كو كھانا دينا ہے "
اور يہ فديہ تاخير كى بنا پر، يہ فديہ قضاء سے قبل يا قضاء كے ساتھ يا قضاء كے بعد بھى ديا جا سكتا ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 76 ).
اور مرداوى حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" فديہ ميں وہ غلہ دےگا جو كفارہ كے ليے كفايت كرتا ہے، اور قضاء سے قبل يا قضاء كے ساتھ يا بعد ميں بھى فديہ ديا جا سكتا ہے، مجد يعنى شيخ الاسلام ابن تيميہ كے دادا كا كہنا ہے: ہمارے نزديك افضل يہ ہے كہ خير ميں جلدى كى جائے؛ تا كہ تاخير كى آفات سے خلاصى ہو " انتہى
ديكھيں: الانصاف ( 3 / 333 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات