ایک شخص کہتا ہے کہ: "ایمان قول، اعتقاد اور عمل کا نام ہے لیکن عمل صرف کمالِ ایمان کی شرط ہے"۔ اسی طرح اس کا کہنا ہے کہ: کفریہ صرف اعتقاد سے ہوتا ہے، تو کیا اہل سنت و الجماعت کا یہی موقف ہے؟
کوئی کہے کہ: عمل صرف کمالِ ایمان کی شرط ہے۔
سوال: 131415
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
"جو شخص مذکورہ بات کہتا ہے کہ اس نے در حقیقت ایمان اور عقیدے کو سمجھا ہی نہیں ہے، اس پر لازمی ہے کہ اہل علم کے پاس بیٹھ کر عقیدہ پڑھے، اور عقیدہ صحیح ماخذ سے حاصل کرے تو اسے اس سوال کا جواب مل جائے گا۔
اس شخص کی یہ بات کہ: "ایمان قول، اعتقاد اور عمل کا نام ہے " لیکن پھر اضافہ کرتے ہوئے کہنا کہ: "لیکن عمل صرف کمالِ ایمان اور ایمان کی درستگی کی شرط ہے" یہ تو آپس میں متصادم باتیں ہیں!! پہلے کہہ دیا کہ عمل ایمان کا حصہ ہے، پھر کہہ دیا کہ عمل شرط ہے؟ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ شرط ، مشروط سے الگ اور خارجی چیز ہوتی ہے، تو یہ اصل میں تناقض ہے۔
اصل میں یہ شخص سلف صالحین اور متاخرین کے اس مسئلے میں موقف کو جمع کرنا چاہتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے تناقض کا علم نہیں ہے؛ کیونکہ اسے سلف کے موقف کا نہیں پتہ، نہ ہی متاخرین کے موقف کی حقیقت سے آشنا ہے، تو اس نے یہ چاہا کہ دونوں کو جمع کر دے ۔ ایمان قول، عمل اور اعتقاد کا نام ہے۔ عمل ایمان کا حصہ ہے ، اور عمل ایمان ہی ہے ، محض ایمان کے درست ہونے کی شرائط میں سے نہیں ہے، نہ ہی ایمان کے مکمل ہونے کی شرط ہے۔ اور جو باتیں عمل کے متعلق آج کل جو کی جا رہی ہیں یہ درست نہیں ہیں۔ اس لیے ایمان زبان سے اقرار، دل سے اعتقاد اور اعضا سے عمل کا نام ہے، اور ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے جبکہ گناہ سے کم بھی ہوتا ہے۔" ختم شد
الإجابات المهمة في المشاكل الملمة" (صـ 74) .
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
ماخذ:
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ