بلوغت كے ابتدائى برس تو مجھے چھ سے سات يوم تك ماہوارى آئى اور دوسرے برس تقريبا نو روز تك آئى، ليكن دوسرے برس كے آخر اور تيسرے كے ابتدا ميں مجھے ماہوارى كا خون دو سے تين ہفتے تك آنے لگا، اور رمضان المبارك اٹھارہ دن تك تين دن رمضان سے قبل اور پندرہ يوم رمضان المبارك ميں، مجھے يہ بتائيں كہ ان روزوں كى قضاء كا حكم كيا ہے ؟
ماہوارى كے ايام ميں اضافہ ہو تو روزوں كا كيا جائے ؟
سوال: 131541
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حيض كى زيادہ سے زيادہ مدت ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، ليكن اہل علم كے صحيح قول كے مطابق نہ تو ماہوارى كى زيادہ سے زيادہ كوئى حد مقرر ہے اور نہ ہى كم از كم حد مقرر ہے، كسى عورت كے ہاں ماہوارى كے ايام زيادہ ہو سكتے ہيں، اور كسى عورت كو كم بھى، اس ميں حيض كا خون آنا معتبر ہوگا نہ كہ مدت معتبر سمجھى جائيگى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
” شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ابن منذر اور اہل علم كى ايك جماعت كا كہنا ہے كہ: اسے محدد كرنا صحيح نہيں، بلكہ جب عورت حيض كا خون ديكھے جو كہ عورتوں كے ہاں حيض كا خون معروف ہوتا ہے تو حيض شمار ہوگا، اس كى دليل درج ذيل ہے:
اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:
اور يہ لوگ آپ سے حيض كے متعلق دريافت كرتے ہيں آپ كہہ ديجئے كہ يہ گندگى ہے البقرۃ ( 222 ).
تو يہاں فرمان بارى تعالى ” كہہ ديجئے كہ يہ گندگى ہے “
حكم علت كے ساتھ معلق ہے اور وہ علت گندگى ہے لہذا جب يہ گندا خون پايا جائے جو رگ يعنى استحاضہ كا خون نہ ہو تو اسے حيض كا حكم ديا جائيگا ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 402 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
” كچھ عورتيں ايسى بھى ہوتي ہيں جنہيں چار ماہ تك حيض نہيں آتا وہ طہر كى حالت ميں ہى رہتى ہيں اور پھر مكمل ايك ماہ تك حيض آتا ہے، اللہ اعلم گويا كہ وہ ناپاك ہوتا ہے اور پھر اكٹھا ہو كر ايك ہى بار آ جاتا ہے.
اور كچھ عورتوں كو ايك ماہ ميں تين يا چار يا پانچ يا دس دن تك بھى حيض آتا ہے ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 402 ).
اس بنا پر آپ كى ماہوارى وہى شمار ہوگى جن ايام ميں حيض كا خون آتا ہے حتى كہ آپ طہر اور پاكى ديكھ ليں، چاہے يہ ايام پانچ يا دس ايام سے بھى زيادہ ہوں، جب تك كہ پورا ماہ خون نہ آتا ہو يا پھر پورے ماہ ميں ايك يا دو دن رك جائے تو اس صورت ميں وہ استحاضہ كا خون ہوگا.
استحاضہ كے خون كا حكم معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 68818 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات