ميں عورت ہوں اور ميرا ايك دوست اسلام قبول كرنا چاہتا ہے، ليكن جب اسے علم ہوا كہ اس پر روزہ ركھنا فرض ہے اور روزے كى حالت ميں وہ كھانے پينے كى اشياء استعمال نہيں كر سكتا تو وہ تردد كا شكار ہوگيا، كيونكہ وہ كافى كا عادى ہے اور مستقل طور پر نوش كرتا ہے اس ليے كہ اسے درد شقيقہ كى بيمارى ہے اور وہ اسے بطور علاج استعمال كرتا ہے، مجھے يہ بتائيں كہ ميں اس شخص كى كس طرح مدد كر سكتى ہوں، اور كيا آپ كے پاس اس سلسلہ ميں كوئى تجويز ہے ؟
اسلام قبول كرنا چاہتا ہے ليكن روزے كى حالت ميں كافى پينے سے نہيں رك سكتا!
سوال: 140972
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
بندے پر اللہ سبحانہ و تعالى كى سب سے عظيم نعمت ہے كہ اللہ تعالى اپنے بندے كو دين اسلام كى قبول كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور اس كے سينے كو ايمان لانے اور دين اسلام كا مطيع ہونے كے ليے كھول دے، اور يہى بندے كى سعادت و خوشبختى اور فلاح و كاميابى كى علامت ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اللہ سبحانہ و تعالى جسے ہدايت دينا چاہے تو اس كے سينہ كو اسلام كے ليے كھول ديتا ہے، اور جسے گمراہ كرنا چاہے اس كے سينہ كو تنگ كر ديتا ہے، گويا كہ وہ آسمان ميں چڑھ رہا ہے، اسى طرح اللہ سبحانہ و تعالى پليدگى كو ان پر لاگو كر ديتا ہے جو ايمان نہيں لاتے الانعام ( 125 ).
شيخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اللہ سبحانہ و تعالى اپنے بندوں كے ليے سعادت و خوشبختى اور ہدايت اور گمراہى كى علامت بيان كرتے ہوئے كہتا ہے كہ:
جس كا دين اسلام كے ليے سينہ كھل جائے يعنى اس كا سينہ كھل كر وسيع ہو جائے تو اس كا سينہ ايمان كے نور سے روشن ہو جاتا ہے، اور يقين كى روشنى سے زندہ ہو جائے تو وہ بندہ اس سے مطئمن ہو جاتا ہے، اور خير و بھلائى كو پسند كرنے لگتا اور خير و بھلائى كے ليے اس كا نفس مطيع ہوجاتا ہے تو اسے اطاعت ميں لذت حاصل ہوتى ہے، اس كے ليے اطاعت و فرمانبردارى بوجھ نہيں بنتى، تو يہ اس بات كى علامت ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے ہدايت نصيب فرما دى ہے، اور اس پر صحيح اور سيدھى راہ پر چلنے كى توفيق كا انعام كيا ہے.
اور جسے اللہ سبحانہ و تعالى گمراہ كرنا چاہے تو اس كى علامت يہ ہے كہ: اس كا سينہ تنگ كر ديتا ہے، يعنى: ايمان اور علم و يقين كو حاصل كرنے سے اس كا سينہ تنگ ہو جاتا ہے، اور اس كے دل ميں شبہات اور شہوات گھر كر جاتے ہيں، اس ليے اس ميں نہ تو خير و بھلائى جاتى ہے اور نہ ہى اس كا دل خير و بھلائى كے ليے كھلتا اور وسيع ہوتا ہے.
گويا كہ وہ اپنى تنگى اور شدت كى بنا پر آسمان ميں چڑھ رہا ہے، يعنى: گويا كہ اسے اس آسمان ميں چڑھنے كا مكلف كيا جا رہا ہے جس ميں اسے كوئى حيلہ حاصل نہيں.
ا سكا سبب ان كا عدم ايمان يعنى ايمان نہ لانا ہے، اسى نے واجب كر ديا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان پر پليدى كو مسلط كر ديا، اس ليے كہ انہوں نے اپنے اوپر رحمت و احسان كے دروازے بند كر ليے، يہ ايسا ترازو ہے جو كبھى نيچا نہيں ہوگا، اور ايسا راستہ ہے جو تبديل نہيں ہوتا.
كيونكہ جس نے اللہ كى راہ ميں خرچ كيا اور تقوى اختيار كيا، اور نيك بات كى تصديق كى اللہ تعالى اس كے ليے آسان راستے كى سہولت ميسر كرےگا، اور جس نے بخيلى كى اور بےپرواہى كرتا رہا اور نيك بات كى تكذيب كى تو اس كے ليے تنگى و مشكل كے سامان ميسر كر دےگا ” انتہى
ديكھيں: تفسير السعدى ( 272 ).
اس ليے ہم اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كرتے ہيں كہ وہ اس سائل كو ہدايت نصيب فرمائے، اور اس كے سينہ كو دين اسلام كے ليے كھول دے، اور اسے ايمان و يقين كى دولت سے مالا مال كرے، اور اپنے دين كے سامنے سرخم تسليم كرنے كى توفيق عطا فرمائے.
دوم:
اسے يہ معلوم كر لينا چاہيے كہ اللہ كے دين ميں رمضان المبارك كے روزے ركھنا كوئى آسان چيز اور معاملہ نہيں، بلكہ رمضان المبارك كے روزے تو دين اسلام كے پانچ اركان ميں سے ايك ركن، اور دين اسلام كى پانچ بنيادى اشياء ميں سے ايك عظيم بنياد ہے.
جيسا كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى معروف حديث ميں وارد ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے رسول ہيں، اور نماز قائم كرنا، اور زكاۃ كى ادائيگى كرنا، اور حج كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 8 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 16 ).
اور اس سائل كو يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ كلمہ شہادت پڑھنا اور دين اسلام ميں داخل ہونے كا معنى يہ ہے كہ: بندہ اپنے دل اور سارے اعضاء كے ساتھ اپنے پروردگار اللہ رب العالمين كا مطيع و فرمانبردارى ہو جائے، اور اللہ پر ايمان لاتے ہوئے جو بھى اللہ نے نازل كيا ہے اس پر ايمان لائے اور اپنے پروردگار كے سامنے سر تسليم خم كر دے، اور اس كے احكام اور نواہى كو تسليم كرے اور اللہ كى خبر كى تصديق كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ہم نے ہر ہر رسول كو صرف اسى ليے بھيجا كہ اللہ تعالى كے حكم سے اس كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائے، اور اگر يہ لوگ جب انہوں نے اپنى جانوں پر ظلم كيا تھا تيرے پاس آ جاتے اور اللہ تعالى سے استغفار كرتے، اور رسول بھى ان كے ليے استغفار كرتا تو يقينا يہ لوگ اللہ تعالى كو معاف كرنے والا مہربان پاتے
سو قسم ہے تيرے پروردگار كى ! يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ تمام آپس كے اختلاف ميں آپ كو حاكم نہ مان ليں، پھر آپ ان ميں جو فيصلہ كر ديں ان سے اپنے دل ميں كسى طرح كى بھى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ اسے قبول كر ليں النساء ( 64 – 65 ).
ابن كثير رحمہ اللہ اس آيت كى تفسير كرتے ہوئے كہتے ہيں:
” قولہ تعالى:
سو قسم ہے تيرے پروردگار كى ! يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ تمام آپس كے اختلاف ميں آپ كو حاكم نہ مان ليں
اللہ سبحانہ و تعالى اپنى قسم كھا كر كہہ رہے ہيں كہ: كوئى شخص بھى اس وقت تك مومن نہيں ہو سكتا جب تك كہ وہ اپنے سارے امور ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو حاكم اور منصف تسليم نہ كر لے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو فيصلہ كر ديں وہ حق ہے اس كے سامنے سر تسليم خم كرنا اور اسے باطنى اور ظاہرى طور پر تسليم كرتے ہوئے اس پر عمل كرنا واجب ہے.
اسى ليے اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا ہے:
پھر آپ ان ميں جو فيصلہ كر ديں ان سے اپنے دل ميں كسى طرح كى بھى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ اسے قبول كر ليں
يعنى: جب وہ آپ كو حاكم مان ليں تو اپنے باطن ميں آپ كى اطاعت كريں گے تو آپ نے جو فيصلہ كيا ہے اس سے انہيں كوئى تنگى نہيں ہوگى، اور وہ ظاہرى اور باطنى دونوں طرح آپ كے مطيع ہونگے، اور بغير كسى تنگى و جھگڑے اور ممانعت كے وہ آپ كى بات كو تسليم كريں گے ” انتہى
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 349 ).
اس اصول اور معنى كو واضح كرنے كے ليے قرآن مجيد ميں بہت سارى آيات پائى جاتى ہيں ہم اسى پر اكتفا كرتے ہيں.
سوم:
جب ہم اس عظيم اصول كو سمجھ ليں گے جو ايمان كے اصول ميں شامل ہوتا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے جو بھى آيا اور نازل ہوا ہے اسے قبول كرنا اور اس كے سامنے سرتسليم خم كرنا ہے، اور ظاہرى و باطنى دونوں طرح اسے ماننا ہے، اور جب ہم يہ سمجھ جائيں گے كہ رمضان المبارك كے روزے دين اسلام اور ايمان كے اركان ميں سے ايك ركن ہے، تو يہ معلوم ہوا كہ اسے قبول كيے بغير كسى كا بھى ايمان صحيح نہيں ہوگا.
اس كے بعد درج ذيل كام كرنا ہوگا كہ دين كى رغبت ركھنے والے اس شخص كو ہم يہ بتائيں اور اس كے ليے يہ واضح كريں كہ دين اسلام قبول كرنے ميں اسے كوئى مشكل درپيش نہيں، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے بندوں پر ان كے دين ميں كوئى تنگى نہيں ركھى، بلكہ اس نے اس نے ان پر يہ دين آسان كيا ہے، اور جو بھى تنگى اور مشقت ميں ڈالنے والى چيز ہے اسے دور كيا ہے.
اس ليے اگر يہ شخص درد شقيقہ كى بنا پر قہوہ اور كافى پيتا ہے تو يہ ممكن ہے كہ وہ رات كے حصہ ميں انتى مقدار پى لے جو اسے كافى ہو، اور جب صبح روزہ شروع كرے تو پھر غروب آفتاب تك بغير پيئے گزارہ كر سكے، اور يہ بھى ممكن ہے كہ وہ اس درد كو دور كرنے كے ليے كوئى دوسرى دوائى بھى استعمال كر سكتا ہے جو اس كى تكليف ميں كمى كرے.
يہ معلوم ہونا چاہيے كہ جو مريض دن ميں بيمارى محسوس كرتا ہو، اور اس كا مرض روزہ ركھنے كى بنا پر متاثر ہوتا ہو تو يہ سب كو معلوم ہے كہ ايسا شخص اللہ كے دين ميں معذور ہے، اس ليے جب اسے درد شقيقہ ہو اور وہ دوائى كا محتاج ہو اور روزہ برداشت نہ كر سكے تو اس دن اس كے ليے روزہ چھوڑنا ممكن ہے.
پھر جب رمضان المبارك كا مہينہ گزر جائے تو اس نے جتنے دن روزہ نہيں ركھا تھا وہ آئندہ رمضان آنے تك ان ايام كى قضاء كرتے ہوئے اتنے ہى روزے ركھےگا جتنے چھوڑے تھے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو تم پر روزے فرض كيے گئے ہيں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض كيے گئے تھے تا كہ تم تقوى اختيار كرو
گنتى كے چند دن ہيں، چنانچہ تم ميں سے جو كوئى بھى بيمار ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے، اور ان لوگوں پر جو اس كى طاقت ركھے ہيں ايك مسكين كو بطور فديہ كھانا دينا ہے، اور جو كوئى نيكى ميں سبقت كرے وہ اسى كے بہتر ہے، ليكن تمہارے حق ميں بہتر كام روزے ركھنا ہى ہے اگر تم علم ركھتے ہو البقرۃ ( 183 – 184 ).
ليكن اگر وہ شخص كافى اور قہوہ پسند كرتے ہوئے نوش كرنا چاہتا ہے، اور وہ اپنى اس خواہش و رغبت كو ہر سال ايك مہينہ كے ليے روزے كى حالت ميں دن كے وقت نہيں چھوڑنا چاہتا تو يہ شخص ايمان قبول كرنے اور دين اسلام كے سامنے سرتسليم خم كرنے كے ليے تيار نہيں ہے، اور نہ ہى وہ دين اسلام كو حقيقى طور پر اپنانا چاہتا ہے نہ دين اسلام كو اور نہ ہى كسى اور دين كو.
كيونكہ دين چاہے كوئى بھى دين ہو وہ اس دين پر چلنے والے شخص سے مطالبہ كرتا ہے كہ اس نے جو دين بھى اپنايا ہے وہ اس كے سامنے مكمل طور پر سرتسليم خم كر دے، اور اپنى نفسانى خواہشات و رغبات ترك كرتے ہوئے دين پر ہى عمل كرے.
تو يہاں وہ مشكل گھاٹى آتى ہے جہاں پر آ كر بہت سارے لوگ ناكام ہو جاتے ہيں كہ اس گھاٹى سے آگے نہيں بڑھ سكتے اور اپنى خواہشات كو نہيں چھوڑتے، جو ان كا دل چاہتا ہے اس كى مخالفت نہيں كر سكتے، اور يہى چيز ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد ميں اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:
كيا آپ نے اس شخص كو نہيں ديكھا جس نے اپنى خواہش كو اپنا الہ و معبود بنا ركھا ہے، تو كيا آپ اس كے ذمہ دار ہو سكتے ہيں الفرقان ( 43 ).
چہارم:
يقينا اللہ سبحانہ و تعالى اپنے بندوں پر سب سے زيادہ رحم كرنے والا ہے، بلكہ ايك ماں جو اپنے بچے پر رحم كرتى ہے اللہ سبحانہ و تعالى تو اس ماں سے بھى زيادہ اپنے بندوں پر رحم كرنے والا ہے، جب كبھى كوئى بندہ اللہ سبحانہ و تعالى كى طرف رجوع كرتا اور توبہ كرتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى اس بندے سے بھى زيادہ آگے بڑھتا ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا اللہ عزوجل فرماتا ہے:
” ميں اپنے بندے كے ہاں اس كے گمان كے مطابق ہوں، اور ميں اس كے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے ياد كرتا ہے، اگر وہ مجھے دل ميں ياد كرتا ہے تو ميں اسے اپنے جى ميں ياد كرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے كسى جماعت ميں ياد كرتا ہے تو ميں اسے اس سے بہتر جماعت ميں ياد كرتا ہوں، اور اگر وہ ايك بالشت ميرے قريب آتا ہے تو ميں ايك ہاتھ اس كے قريب ہوتا ہوں، اور اگر وہ ايك ہاتھ ميرے قريب ہوتا ہے تو ميں دو ہاتھ اس كے قريب ہوتا ہوں، اور اگر وہ چل كر ميرے پاس آتا ہے تو ميں اس كے پاس دوڑ كر آتا ہوں ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 7405 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2675 ).
اس ليے اللہ كے بندے تم اللہ پر توكل اور بھروسہ كرو كہ جب اللہ كے قريب صدق و سچائى كے ساتھ ہوگے تو اللہ تعالى بھى آپ كى بات قبول كرتے ہوئے اور عمل كو قبول كرتے ہوئے آپ كے نقصان كو پورا كريگا، اور آپ كے معاملات ميں آسانى پيدا فرمائيگا، اور آپ كا شرح صدر فرمائيگا، اور آپ سے شر و برائى كو دور كريگا، اور جہاں سے آپ كو گمان بھى نہيں ہوگا وہاں سے مدد فرمائيگا.
اس ليے ہو سكتا ہے آپ رمضان المبارك كے روزے ركھيں تو اللہ تعالى آپ كے درد شقيقہ كى بيمارى كو ہى دور كر دے اور شفايابى نصيب كر دے، اور ہو سكتا ہے كہ آپ كو اس كافى اور قہوہ پينے سے ہى غنى كر دے كہ آپ كى يہ عادت ختم ہو جائے، اس ليے آپ اللہ كى طرف رجوع كريں اور اپنے پروردگار كے ساتھ حسن ظن ركھتے ہوئے اپنى حاجت و ضرورت اسى كے سامنے پيش كريں.
ليكن شرط يہ ہے كہ آپ اس سلسلہ ميں خود كو اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم كے سامنے مطيع بنا كر پيش كريں اور اس كے حكم كے سامنے سرخم تسليم كر ديں، اور جو اللہ نے نازل كيا ہے اس كو قبول كرتے ہوئے اس پر ايمان لائيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
چنانچہ جس نے اللہ كى راہ ميں خرچ كيا اور تقوى اختيار كيا، اور نيك بات كى تصديق كى اللہ تعالى اس كے ليے آسان راستے كى سہولت ميسر كرےگا الشمش ( 5 – 7 )
پنجم:
يہ معلوم ہونا چاہيے كہ جب بندہ اپنے پرودگار پر ايمان لانے ميں سچائى اختيار كرے، اور پھر كچھ امور سرانجام دينے ميں عاجز ہو، يا پھر اس كا نفس اور شہوت اس پر غالب آ جائے اور وہ كوئى معصيت و نافرمانى كر بيٹھے، تو يہ معصيت و نافرمانى راہ كا آخر نہيں، بلكہ اس كے ليے اپنے پروردگار كے سامنے توبہ و رجوع كرنے كا دروازہ كھلا ہے.
پھر جب كوئى شخص معصيت و نافرمانى ميں ہوتا ہے تو اسے اللہ كى جانب سے معافى و درگزر كى اميد ہوتى ہے، وہ اميد ركھتا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اس كى يہ غلطى اور گناہ معاف فرمائيگا.
ليكن مشكل تو وہ ہے جس كا كوئى حل نہيں كہ انسان اپنے پروردگار كے ساتھ شرك پر باقى رہے، اور اپنے رب كے دين سے اعراض كرتا پھرے اور اسے قبول نہ كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يقينا اللہ سبحانہ و تعالى اسے معاف نہيں كرتا كہ اس كے ساتھ شرك كيا جائے، اور اس كے علاوہ باقى گناہ جسے چاہے معاف كر دےگا، اور جو كوئى اللہ كے ساتھ شرك كرے تو اس نے بہت بڑا گناہ كمايا النساء ( 48 ).
ششم:
جس پر ہميں متنبہ ہونا چاہيے اور جو اہم چيز ہے وہ يہ كہ دين اسلام ميں ايك اجنبى مرد اور عورت كے مابين كوئى دوستى و تعلق قابل قبول نہيں ہے، بلكہ يہ تو جاہليت كے اعمال ميں شامل ہوتا ہے جس سے مسلمان شخص كو اجتناب كرنا چاہيے، بلكہ دين اسلام نے مرد و عورت كے اختلاط كو منع كيا ہے، كہ مرد اجنبى عورتوں كے ساتھ ميل جول مت ركھيں اور نہ ہى ان سے خلوت اختيار كريں.
اس كى تفصيل ہمارى اسى ويب سائٹ پر ” مرد و عورت كے مابين تعلقات ” كے عنوان ميں بيان ہو چكى ہے، اس ليے آپ اس كا مطالعہ كر سكتى ہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب