سوال: میں طائف شہر کا رہائشی ہوں، اور آٹھ سال سے (320) کلو میٹر دور “رابغ” شہر میں ملازمت کر رہا ہوں، میں ہفتے کو رابغ جاتا ہوں، اور جمعرات کے دن اپنے گھر واپس آتا ہوں، تو کیا سفر کے وقت میں روزہ چھوڑ سکتا ہوں ؟ اور میں اپنے گھر والوں کے پاس ہوتے ہوئے نمازیں جمع اور قصر کرسکتا ہوں، کیونکہ میں اپنے گھر والوں کے پاس ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران ہی آتا ہوں، اور یہ مدت چار دن سے کم ہے۔
تو کیا مجھ پر مسافر کے احکامات جاری ہوتے ہیں، کہ نمازیں جمع اور قصر کروں، اور رمضان کے دنوں میں مجھے روزہ ترک کرنے کی چھوٹ ہو؟
رہائش اور ملازمت “رابغ”شہر میں ہے، اور ہفتے کے آخر پر طائف میں مقیم اپنے اہل خانہ کی جانب سفر کرکے جاتا ہے، تو کیا وہ سفر کی رخصتوں پر عمل کرسکتا ہے؟
سوال: 207229
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
طائف اور رابغ کے درمیان (320) کلو میٹر کی مسافت قصر کرنے کی مسافت ہے، چنانچہ ان دونوں شہروں کیلئے سفر کے وقت آپ سفر کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے نمازیں جمع و قصر کرسکتے ہیں، اور روزے چھوڑ بھی سکتے ہیں؛ کیونکہ آپ مسافر ہیں۔
چنانچہ ” فتاوى اللجنة الدائمة – پہلا ایڈیشن” (8/99)میں ہے کہ:
“عرف عام میں معروف سفر کے دوران سفر کی رخصتوں پر عمل کرنا شرعا جائز ہے، اور اس سفر کی مقدار –سمجھانے کیلئے – تقریبا 80 کلومیٹر بنتی ہے، چنانچہ جو شخص اتنی یا اس سے زیادہ مسافت طے کرے تو وہ سفر کی رخصتوں پر عمل کرسکتا ہے، مثلا: موزوں پر تین دن اور رات مسح ، نمازیں جمع وقصر، اور رمضان میں روزے چھوڑ سکتا ہے” انتہی
مزید استفادہ کیلئے آپ سوال نمبر: (105844) کا بھی مطالعہ کریں۔
دوم:
جو شخص کسی شہر میں ملازمت کیلئے مطلق طور پر ٹھہر جائے، اور اپنے اصلی علاقے میں واپس جانے کی نیت نہ رکھے تو اسکا حکم اس شہر میں مقیم حضرات والا ہی ہے، اس لئے اس پر روزے رکھنا ، نمازیں مکمل ادا کرنا اور دیگر مقیم حضرات والے احکامات کی پابندی کرنا ضروری ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جو لوگ غیر ممالک میں مطلق اقامت کی نیت کر لیں، اور اگر انہوں نے وہاں سے جانا بھی ہو تو کسی سبب سے جائیں، مثلا: کام کیلئے اقامت پذیر مزدور طبقہ، یا تجارت کیلئے مقیم تاجر حضرات، اور ملکی سفیر وغیرہ جو بھی ٹھہرنے کا عزم کر لیں ، تو ان لوگوں پر روزہ رکھنا، موزوں پر مسح کی مدت ایک دن اور رات ، اورچار رکعتوں والی نماز مکمل پڑھنا ،مقیم لوگوں کی طرح واجب ہوگا”انتہی
” مجموع فتاوى ابن عثيمين ” (15/289)
چنانچہ اگر اس کے بعد کوئی اپنے اصل علاقے میں واپس چلا جائے، جہاں سے وہ آیا تھا، یا اس علاقے میں چلا جائے جہاں اسکے اہل خانہ رہتے ہیں، اور وہ وہاں پر چار دن سے زیادہ رہنے کی نیت نہیں کرتا تو وہ وہاں پر مسافر ہے، اس لئے وہ سفر کی سہولتوں یعنی: نماز قصر، رمضان کے روزوں پر چھوٹ وغیرہ پر مشتمل رخصتوں پر عمل کرسکتا ہے۔
چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر آدمی کسی شہر میں آئے، وہاں اسکے کچھ رشتہ دار بھی رہتے ہوں، یا سسرال ہو، یا بیوی وہاں مقیم ہو، لیکن آدمی وہاں پر چار دن رہنے کی نیت نہیں کرتا، تو وہ نمازیں قصر کرسکتا ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے فتح مکہ ، حجۃ الوداع، اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی امارت میں حج کے موقع پر نمازیں قصر ہی کی تھیں، حالانکہ متعدد صحابہ کرام کے وہاں پر ایک یا ایک سے زائد مکانات، اور رشتہ دار تھے، جن میں ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں انکا مکہ میں گھر بھی تھا، اور رشتہ دار بھی، عمر رضی اللہ عنہ کے مکہ میں متعدد مکانات تھے، عثمان رضی اللہ عنہ کا مکہ میں مکان بھی تھا اور رشتہ دار بھی، تو مجھے کسی کے بارے میں علم نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نمازیں مکمل پڑھنے کا حکم دیا ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نمازیں مکمل نہیں پڑھیں، اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مکہ آمد پر انہوں نے نمازیں مکمل ادا کیں” تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
” الأم ” (1/217)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“میں قصیم میں رہتا ہوں، اور کبھی کبھار ریاض میں گھر والوں سے ملنے جاتا ہوں، میرا وہاں پر ایک کمرہ ہے، میں انکے پاس دو تین دن رہتا ہوں، تو کیا میرے لئے جائز ہے کہ میں وہاں پر اگر اکیلا نماز پڑھوں تو قصر کرسکتا ہوں؟ اور کیا میرا حکم مسافر والا ہی ہوگا؟
تو انہوں نے جواب: جی ہاں! آپکا حکم مسافر والا ہی ہے؛ کیونکہ آپکا اصل علاقہ قصیم ہے، اور [ریاض میں ]اہل خانہ سے ملاقات کرنا مسافر کی ملاقات [کے حکم میں]ہے ، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں نماز قصر کی تھی، حالانکہ آپ پہلے وہیں کے رہائشی تھے، آپکے وہاں پر مکانات بھی تھے، لیکن جب آپ ہجرت کرکے مدینہ آگئے تو مدینہ آپکا وطن بن گیا، چنانچہ آپ جب بھی اپنے اہل خانہ سے ملنے جاتے ہیں تو آپ مسافر ہی ہوتے ہیں”انتہی
” لقاء الباب المفتوح ” (58/23)
خلاصہ یہ ہے کہ:
آپ دو حالتوں میں سفر کی سہولیات پر عمل کرسکتے ہیں:
پہلی حالت: رابغ اور طائف کے مابین سفر کے دوران آتے جاتے ، کیونکہ ان دونوں کے درمیان مسافت قصر کی مسافت ہے۔
دوسری حالت:جب آپ طائف میں رُکے ہوئے ہوں، بشرطیکہ آپ نے اپنی ملازمت کی جگہ پر مستقل رہائش رکھ لی ہو، اور آپ جمہور علمائے کرام کی رائے کے مطابق یہاں [طائف میں ] چار دن یا اس سے کم مدت ٹھہریں۔
لیکن اگر اپ ایسی جگہ ہیں جہاں نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے تو آپ پر انکے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا ضروری ہے، چنانچہ اگر مقیم اما م نماز مکمل پڑھاتا ہے تواسکے پیچھے نماز مکمل پڑھو گے۔
مزید فائدے کیلئے سوال نمبر: (45815) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات