ہم اپنے اخلاق کو کیسے بہتر سے بہترین بنا سکتے ہیں؟ اور پھر اپنے بچوں کی اعلی اخلاقی اقدار پر کیسے تربیت کر سکتے ہیں؟ میں نے متعدد علمائے کرام کو سنا ہے وہ کہتے ہیں کہ اعلی اخلاقی اقدار سیکھنے کے لیے علمائے کرام کے ساتھ رہنا انتہائی ضروری ہے ۔۔۔اس کی وجہ سے مجھے بہت پریشانی ہے کیونکہ میرے آس پاس کا سارا ماحول کسی بھی طرح سے اعلی اخلاقی اقدار سیکھنے کے لیے معاون ثابت نہیں ہوتا؛ نیز یہ بھی کہ مجھے اسلام قبول کیے ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے، اور میرے پاس اتنا علم نہیں ہے کہ جو میرے لیے اور میرے بچوں کی اعلی اخلاقی تربیت کے لیے کافی ہو، مجھے اس کی بھی بہت پریشانی ہے کہ میرے بچے ہر وقت ٹیلی ویژن دیکھتے رہتے ہیں، پھر کچھ عزیز و اقارب اور دوست ایسے ہیں جو ان پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ ہم جتنی بھی کوشش کر لیں لیکن معاشرے اور دوستوں کے اثرات پھر بھی بہت زیادہ ہیں، اس مسئلے کی وجہ سے مجھے بہت پریشانی اور قلق ہے؛ کیونکہ صرف صبر اور نرمی برتنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ تو اس وجہ سے بچوں کے ساتھ سختی اور انہیں زد و کوب کیا جا سکتا ہے؟
اپنی اولاد کی تربیت کیسے کریں؟
سوال: 215167
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سب سے پہلے تو ہم اسلام قبول کرنے پر آپ کو مبارکباد دیں گے، یہ اللہ تعالی کا آپ پر بہت بڑا احسان ہے، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو دین اسلام پر ہمیشہ ثابت قدم رکھے اور جب ہماری اللہ تعالی سے ملاقات ہو تو اللہ تعالی ہم سے راضی ہو، اسی طرح ہم آپ کو بچوں کی صحیح تربیت کی حوالے سے کوشش اور محنت کو بھی سراہتے ہیں۔
اور آپ کے سوال کا جواب دینے کے لیے کچھ اہم عناصر کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرتے ہیں ان شاء اللہ یہ آپ کے لیے معاون ثابت ہوں گے:
اول:
یہ بات ہمارے ذہن میں لازمی ہونی چاہیے کہ عام طور پر بد اخلاقی پر مشتمل چیزیں شہوت اور ہوس کے مطابق ہوتی ہیں؛ لہذا بچہ معمولی سا سبب اور وجہ بنتے ہی بد اخلاقی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ بد اخلاقی کے مقابلے میں حسن اخلاق ہوتا ہے: یعنی اپنے آپ کو ایسی نفسانی خواہشات اور شہوت سے روکنا جو انسان کے حقیقی فوائد کے لیے رکاوٹ بنیں؛ تو اس سے معلوم ہوا کہ ہوس پرستی اور شہوت کے مخالف راستے پر چلنا حسن اخلاق ہے؛ کیونکہ یہ تعمیری راستہ ہے چنانچہ اس کے لیے محنت اور تگ و دو بھی کرنی پڑتی ہے۔
لہذا صحیح تربیت یہ ہو گی کہ ہم بچے میں اخلاق حسنہ اس انداز سے پیوست کر دیں کہ ان کی بدولت بچہ بری ہوس اور غلط سوچ و افکار پر غلبہ پا لے، بچہ بذات خود صرف ایسی چیزوں کے ساتھ ہی سکون محسوس کرے جو بچے کے لیے بہتر ہوں، اور اخلاق حسنہ سے متصادم تمام چیزوں کی وجہ سے بے چین رہے۔
لہذا بچے کو اس قابل بنانے کے لیے کہ بچہ بذات خود اچھی چیزوں کو قبول کرنے لگ جائے، ضروری ہے کہ اخلاق حسنہ پر مبنی امور سے بچہ محبت کرنے لگے ، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی بھی چیز سے محبت شدت اور زد و کوب کرنے سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے درج ذیل امور کی ضرورت ہوتی ہے:
1-نرمی اور پیار
اس بارے میں متعدد احادیث نبویہ ہیں کہ جن میں نرمی اور پیار استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی تمام معاملات میں نرمی کو پسند فرماتا ہے۔) بخاری: (6024)
اسی طرح صحیح مسلم: (2592) میں سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جسے نرمی سے محروم کر دیا گیا وہی در حقیقت خیر سے محروم کر دیا گیا۔)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً نرمی جس چیز میں بھی پائی جاتی ہے اسے خوبصورت بنا دیتی ہے، اور جس چیز میں سے بھی نرمی چھین لی جاتی ہے اسے بد صورت بنا دیتی ہے۔) مسلم: (2594)
اسی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:(جب اللہ تعالی کسی بھی گھر والوں پر بھلائی اور رحمت کا ارادہ فرماتا ہے تو انہیں نرمی عطا فرماتا ہے۔) اس حدیث کو امام احمد نے مسند احمد: (24427) میں روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے صحیح الجامع: (303) میں صحیح قرار دیا ہے۔
بچوں کی عادت ہے کہ بچے ایسے والد سے محبت کرتے ہیں جو بچوں کے ساتھ نرمی کرے، ان کی مشکل جگہوں میں حسب استطاعت مدد کرے، بچوں کا خیال رکھے، بچوں کو سمجھاتے ہوئے چیخے نہ چلائے، ہر وقت حکمت اور صبر سے کام لے۔
بچوں کی کچھ عمر ایسی ہوتی ہے جس میں بچے کو تفریح اور کھیل کود کی ضرورت ہوتی ہے، اور اسی طرح ایک عمر ایسی بھی آتی ہے جس میں تادیب اور تدریس دونوں ضروری ہوتی ہیں، لہذا بچے کی عمر کے حساب سے مناسب اور معتدل طریقے سے نمٹا جائے۔
جس وقت بچے نرم دل والد سے محبت کرنے لگیں تو اسی محبت کی وجہ سے بچے اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، لیکن جب والد نرم دل نہ ہو بچوں کا خیال نہ رکھتا ہو ، بلکہ سختی اور مار پیٹ کرے تو بچے والد کے نقش قدم پر نہیں چلتے بلکہ والد سے نفرت کرنے لگتے ہیں، جس کا نتیجہ سرکشی اور نافرمانی کی صورت میں نکلتا ہے، یا پھر بچہ خوف کے ڈر سے جھوٹ یا دھوکا دہی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
2-بچوں کے ساتھ نرمی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچوں پر ضرورت کے وقت بھی سختی نہ کی جائے، لیکن یہاں یہ بات ذہن نشین ہونا نہایت ضروری ہے کہ بچوں کو سزا دیتے ہوئے حکمت سے کام لینا انتہائی ضروری ہے؛ لہذا یہ بالکل غلط ہو گا کہ بچے کو ہر غلط حرکت پر سزا دی جائے، بلکہ سزا صرف ایسی جگہ ہو گی جہاں پر نرمی کا فائدہ نہ ہو، یعنی جہاں پر زبانی کلامی نصیحت اور منع کرنے یا کہنے سے فائدہ نہ ہو۔
پھر سزا بھی ایسی ہو جس کا فائدہ ہو، مثلاً: آپ کو بچوں کے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے رہنے کی شکایت ہے، تو آپ اس بری عادت کو ختم کرنے کے لیے پروگرام مخصوص کر سکتی ہیں کہ جن میں فائدہ زیادہ ہو اور ان میں کم از کم برائی کا عنصر پایا جاتا ہو۔ اب اگر مقررہ وقت سے زیادہ ٹیلی ویژن پر بیٹھے رہیں تو آپ انہیں سزا کے طور پر پورا دن ہی ٹیلی ویژن نہ دیکھنے دیں، اور اگر آئندہ سے پھر آپ کی کوئی بات نہ مانیں تو پھر اس سے بھی زیادہ مدت کے لیے ٹیلی ویژن نہ دیکھنے دیں، ٹیلی ویژن دیکھنے کی پابندی کا دورانیہ اتنا ہو کہ آپ کا مقصد پورا ہو جائے اور بچے مؤدب بن جائیں۔
3- عمدہ عملی نمونہ بن کر دکھائیں
اس حوالے سے والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جو اخلاقی اقدار اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں خود بھی اس پر سختی سے عمل پیرا ہوں، لہذا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ بچے کو تو سگریٹ نوشی سے منع کریں لیکن خود سگریٹ نوشی میں مبتلا ہوں۔
اسی لیے سلف صالحین میں سے کسی نے کہا تھا: "اپنے بچوں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح کریں؛ کیونکہ بچے تبھی بگڑتے ہیں جب آپ غلط ہوں، اس لیے بچوں کے ہاں وہ سب کچھ اچھا جو آپ کرتے ہیں، اور وہ سب کچھ برا ہے جو آپ نہیں کرتے۔" ختم شد
" تاريخ دمشق " ( 38 / 271 – 272 )
4- اچھا ماحول، وہی ماحول اچھا ہوتا ہے جو اچھے کام کی حوصلہ افزائی کرے اور حسن کارکردگی کے حامل افراد کی قدر کرے، اسی طرح برے عمل اور برے شخص کی مذمت کرے۔ لیکن آج کل ہمیں ایسے اچھے ماحول کی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے، تاہم اللہ تعالی کی مدد سے اپنے تئیں ہم جسمانی، نفسیاتی، اور مالی کوشش سے ایسا ماحول خود ہی پیدا کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر: اگر کوئی مسلمان فیملی ایسی جگہ رہتی ہے جہاں کوئی اور مسلم فیملی نہیں رہتی تو اس فیملی کو چاہیے کہ کوشش کر کے ایسی جگہ محلے یا شہر میں منتقل ہو جائے جہاں مسلمانوں کی اکثریت پائی جاتی ہے، یا ایسے محلے میں چلے جائیں جہاں پر مساجد ہیں، یا ایسے دینی مراکز موجود ہیں جو بچوں کی تربیت کا خیال رکھتے ہیں۔
فرض کریں کہ اگر کسی بچے میں مخصوص کھیل یا ثقافتی سرگرمی کی جانب میلان ہے تو بچے کے خاندان کو چاہیے کہ اس بچے کے لیے کھیل یا ثقافتی کلب اور سوسائٹی تلاش کرے جس کی ادارت اور نظامت دیندار مسلمانوں کے پاس ہو، جہاں پر ایسے مسلمان اپنے بچوں کو لاتے ہوں جنہیں اپنے بچوں کی تربیت کا خیال ہے، جو اپنے اکثر معاملات میں بچوں کی تربیت کا عنصر ہمیشہ مد نظر رکھتے ہیں، تو جیسے کہ آپ نے بھی کہا کہ صحبت کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے، اس دوران آپ بھی بھر پور کوشش جاری رکھیں کہ اس صحبت کی وجہ سے اگر آپ کو کسی منفی چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو آپ اس کے منفی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کریں، اور مثبت انداز کے ساتھ مسلمان خاندانوں کے ساتھ رہیں۔
اسی طرح اگر کوئی والد اچھے لباس، بہترین کھانا اور آرام دہ رہائش کے لیے رقم خرچ کرتا ہے تو اسی طرح والد کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچے کے اخلاقیات کو سنوارنے کے لیے بھی رقم خرچ کرے، اور اس پر اللہ تعالی سے اجر کی امید رکھے۔
دوم:
خصوصی اوقات میں بچوں کے لیے خاص طور پر دعا کریں، مثلاً: رات کی آخری تہائی میں دعا کریں، سجدے کی حالت میں دعا کریں، اور اسی طرح جمعہ کے دن بھی قبولیت کی گھڑی میں دعا کریں کہ اللہ تعالی آپ کی اولاد کو صالح بنا دے، انہیں صراط مستقیم کی جانب گامزن رکھے؛ کیونکہ اپنی اولاد کے لیے دعا کرنا اللہ تعالی کے نیک بندوں کی علامات میں سے ایک ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے عباد الرحمن کی صفات ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
ترجمہ: اور یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمارے لیے ہماری بیویوں اور اولادوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔ [الفرقان: 74]
علامہ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قُرَّةَ أَعْيُنٍ یعنی انہیں ایسا بنا دے کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ عباد الرحمن کی تمام صفات اور کیفیات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ان کی نگاہ ہمیشہ بلند رہتی ہے انہیں اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک انہیں اپنی اولاد اللہ تعالی کی اطاعت گزاری میں نظر نہ آ جائے، علم و عمل کا پیکر نہ بن جائیں۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ اہل و عیال کی بہتری کے لیے دعا بھی ہے، پھر یہ صرف اہل و عیال کے لیے دعا نہیں ہے بلکہ خود ان کی اپنی ذات کے لیے بھی دعا ہے؛ کیونکہ آخر کار اس کا فائدہ والدین کو ہی ہو گا یعنی براہ راست محنت کے بغیر پھل ، اور ایسے پھل کو تحفہ کہتے ہیں اسی لیے ان عباد الرحمن نے اسے ہبہ یعنی تحفہ قرار دیا اور کہا: هَبْ لَنَا پھر اس دعا کا فائدہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ سارے مسلم معاشرے کو ان کا فائدہ ہوتا ہے؛ کیونکہ اگر مذکورہ لوگوں کی اصلاح ہو گئی تو ان کی وجہ سے بہت سے تعلق داروں کو فائدہ ہو گا ، اور لوگ ان سے مستفید ہوں گے۔" ختم شد
" تيسير الكريم المنان في تفسير كلام الرحمن " (587)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (4237 ) اور (10016 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات