اول:
اگر کوئی مسلمان اللہ تعالی کے اس فرمان:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ
ترجمہ: دنیا کی زندگی میں ہم نے ہی ان کی معیشت ان میں تقسیم کی ہے، اور بعض کو دیگر افراد پر درجات میں فوقیت دی ہے۔[الزخرف: 32] پر غور و فکر کر لے تو اس کے لیے یہ چیز واضح ہو جائے گی کہ لوگوں میں امیر غریب، طاقتور کمزور، صحت مند اور بیمار، شادی شدہ اور کنوارا ، صاحب اولاد اور بے اولاد۔۔۔ ہر طرح کے لوگ موجود ہیں۔
اور یہ بھی علم ہو جائے گا کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے تقسیم ہے، کسی انسان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، اس بات کو سمجھنے سے انسان کا دل راحت اور سکون پاتا ہے اور اس کے دل میں اللہ کی نعمتوں کو پانے والے لوگ دیکھ کر کسی قسم کا حسد پیدا نہیں ہوتا ، نہ ہی وہ پریشان اور غم زدہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس عیش و عشرت کی ایسی چیزیں نہیں ہیں جیسی فلاں شخص کے پاس ہیں! کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے حکم اور مشیئت کے تابع ہے، لہذا جس کے بارے میں اللہ نے جو چاہا وہ ہو گیا اور جس کے لیے نہیں چاہا اس کے لیے کچھ نہ ہوا۔
جب مسلمان کو اس چیز کا اچھی طرح ادراک ہو تو پھر مستقبل کے بارے میں بھی پریشان نہیں ہوتا، بلکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں اللہ تعالی کے احکامات کا پابند رہوں، میں اپنی ساری زندگی اللہ کے لیے اور اللہ کے احکامات کے ساتھ گزاروں، پھر اللہ تعالی اس کے لیے جو چاہے گا رزق میں عطا کرے گا، نیز اللہ تعالی نے اسے جو کچھ عطا کیا ہے اس پر قناعت اور رضا مندی بھی عطا کر دے گا۔
انسان کے رزق کی مقدار مقرر ہے، اللہ تعالی نے جو مقدار اس کے لیے لکھی ہوئی ہے وہ بغیر کسی کمی اور بیشی کے اسے مل کر رہے گی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ: (کسی بھی نفس کو اس وقت تک موت نہیں آئے گی یہاں تک وہ اپنا سارا رزق اور عمر نہ پا لے، اس لیے اللہ سے ڈرو اور تلاش معاش میں اچھا انداز اپناؤ)
اس حدیث کو البانی نے سلسلہ صحیحہ (6/865) میں صحیح قرار دیا ہے۔
یعنی مطلب یہ ہے کہ: انسان کا لکھا ہوا رزق لازمی طور پر ہر حالت میں ضرور ملے گا، انسان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرے، اور رزق کی تلاش میں میانہ روی اختیار کرے، لہذا صرف حلال ذرائع سے کمائے؛ کیونکہ انسان جتنی بھی کد و کاوش کر لے اسے روزی اتنی ہی ملنی ہے جتنی اللہ نے اس کے لیے لکھی ہوئی ہے۔
اس لیے آپ کا گھر سے نکلنا ، لڑکوں سے رابطے بنانا اور اس طرح کے دیگر ہتھکنڈے استعمال کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ان میں سے کسی ایک طریقے کو یا سب کو اپنانے سے خاوند نہیں ملے گا! نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ سے ڈرو اور تلاش میں اچھا انداز اپناؤ)، اس لیے شیطان کی طرف سے مستقبل کے متعلق ڈالے جانے والے وسوسوں میں اپنے آپ کو مت گرائیں، ان وسوسوں کو دل میں ڈالنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ شیطان آپ کو راہ الہی سے بھٹکا دے، آپ صرف اسی کام میں مصروف رہیں جن کا اِس وقت اللہ تعالی نے آپ سے مطالبہ کیا ہے، اس لیے اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کریں، آپ کے مقدر میں لکھا ہوا خاوند آپ کو لازمی ملے گا۔
دوم:
یہ معاملہ کہ کسی شخص سے جان پہچان بنائی جائے اور شادی سے پہلے اس سے گفتگو اور بات چیت رکھی جائے تا کہ دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملے، تو اس بارے میں زمینی حقائق یہ کہتے ہیں کہ: شادی سے پہلے جان پہچان کا کوئی فائدہ نہیں ہے، نہ ہی یہ شادی کے کامیاب ہونے کی ضمانت بن سکتی ہے، اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (84102) کا جواب ملاحظہ کریں۔، اس میں یہ ذکر ہوا ہے کہ ایسی شادیاں جن کی بنیاد شادی سے پہلے کی جان پہچان تھی، جن میں شادی سے پہلے محبت اور عشق کے واقعات رونما ہوتے تھے، وہ تمام شادیاں ناکام اور طلاق پر ختم ہوئیں۔
بلکہ شادی سے پہلے کی جان پہچان لڑکی کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہے؛ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ لڑکا جھوٹا اور دھوکے باز ہو، وہ لڑکی سے جو چاہے لے لے اور لڑکی کے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے، اور کچھ بھی نہ لے سکے۔
آج کل کی ہر لڑکی اپنے بارے میں یہی کہتی ہے کہ میں دیگر لڑکیوں کی طرح نہیں ہوں، اور جس لڑکے سے میں محبت کرتی ہوں وہ بھی کسی دوسرے لڑکے جیسا نہیں ہے، چنانچہ لڑکی شیطان کے اسی دھوکے میں پڑی رہتی ہے اور لڑکی نے اپنی ہر چیز گنوا دی ہوتی ہے، پھر آخر میں اسے پتا چلتا ہے کہ وہ بھی دنیا جہان کی دیگر لڑکیوں جیسی ہی نکلی!
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (84089) کا جواب ملاحظہ کریں۔
کسی بھی شخص کو پہچاننے کے لیے اتنا کافی ہوتا ہے کہ اس لڑکے کی دینداری، اخلاق اور خاندان کے بارے میں پوچھ گچھ کر لی جائے کہ اس نے کہاں پر تربیت اور پرورش پائی ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں تعلیمی اہلیت اور سماجی مقام و مرتبہ بھی اتنی اہمیت رکھتا ہو کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو، پھر منگنی کا مختصر سا دورانیہ ہو اور پھر نکاح ہو جائے۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ میاں بیوی کے حقیقی اخلاق کا صرف اسی وقت علم ہوتا ہے جب وہ ایک ہی چھت تلے زندگی گزاریں، جبکہ اس سے پہلے منگنی اور نکاح کے دورانیے میں [رخصتی سے پہلے] ہر ایک اپنی خوبیاں ہی عیاں کرتا ہے کوئی بھی اپنی برائی سامنے نہیں آنے دیتا، ہر ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لیے خوب تکلف سے کام لیتا ہے، لیکن جب رخصتی ہو جائے تو اس وقت حقیقت آشکار ہوتی ہے، تب دو طرفہ انسان اپنی اصلیت پر آتے ہیں اور ہر قسم کے تصنع اور تکلف سے دور ہوتے ہیں۔
اس لیے شادی سے پہلے کا دورانیہ چاہے وہ کتنا ہی لمبا کیوں نہ ہو جائے یہ شادی کے کامیاب یا ناکام ہونے کی ضمانت نہیں بن سکتا۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کی صحیح رہنمائی فرمائے اور آپ کو وہی کام کرنے کی توفیق دے جو اللہ تعالی کو پسند ہیں اور رضائے الہی کے موجب ہیں۔
واللہ اعلم