اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ حیا اور شرم انتہائی عظیم خوبیاں ہیں، اور اگر یہ لڑکی میں وہ بھی اتنی چھوٹی عمر میں پائی جائیں تو یہ بہت بڑی اور اچھی بات ہے۔
اگر آپ رمضان میں حیض کے باعث چھوٹ جانے والے روزوں کا صراحت کے ساتھ بیان حیا کی وجہ سے نہ کر پائیں تو آپ ذو معنی جملہ اور بات کر لیں، مثلاً آپ کہہ دیں: میں شوال میں اسی طرح روزے رکھ رہی ہوں جیسے لوگ رکھتے ہیں، یا کہہ دیں: روزے رمضان کے علاوہ بھی شرعاً رکھے جا سکتے ہیں، یا اسی طرح کا کوئی اور جملہ کہہ دیں۔
آپ نے کہا کہ: "میں صوم صابرین رکھ رہی ہوں" اس کا صحیح معنی اور مفہوم بھی نکلتا ہے؛ کیونکہ روزہ تو سراپا صبر کا نام ہے اور صبر کرنے والے ہی روزہ رکھتے ہیں، صبر کے بغیر روزہ نہیں ہوتا، اس لیے یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ کا یہ جملہ خالص جھوٹ ہو، تاہم اس صحیح معنی اور مفہوم کا اعتبار اسی وقت ہو گا جب یہ جملہ کہتے ہوئے آپ کے ذہن میں یہ معنی اور مفہوم آئے۔
بہ ہر حال : ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کے اس جملے سے در گزر فرمائے گا؛ کیونکہ شدت حیا کی وجہ سے آپ صحیح جملہ اختیار نہیں کر پائیں، اور مناسب طریقے سے جواب نہیں دے سکیں۔
ذو معنی گفتگو کے بارے میں مزید جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (27261) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
روزے کی بنیاد نیت پر ہوتی ہے، نہ کہ ایسے الفاظ پر جو روزے دار کے منہ سے جاری ہوں اور وہ الفاظ روزے دار کا مقصود بھی نہ ہوں؛ لہذا اگر آپ نے روزوں کی قضا کی نیت کی تھی تو آپ کی قضا والی نیت باقی ہے، اور آپ کا یہ روزہ ایام حیض میں چھوٹے ہوئے روزوں سے کفایت کر جائے گا، چاہے آپ نے اپنے والد کو اپنے روزوں کے بارے میں نفل یا کچھ اور کہا ہو، آپ کی بات کا روزے کے حکم پر کوئی اثر نہیں ہو گا؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بیشک اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی تھی) بخاری: (1)، مسلم: (1907)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (109351) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اس بنا پر آپ کے ذمے ان ایام کی قضا دینا ضروری نہیں ہے، نہ ہی آپ کے بتلائے ہوئے شیڈول پر چلتے ہوئے اپنے آپ پر سختی کرنے کی ضرورت ہے، آپ بس اتنا کر سکتی ہیں کہ جس قدر استطاعت میں ہو آپ نفل روزے رکھیں، اور کسی بھی ایسے تکلف میں مت پڑیں جو آپ کے ذمے نہیں ہے۔
واللہ اعلم