میں امریکہ کے مشرقی حصے میں رہتی ہوں، 29 شعبان کو فلکیاتی حساب کے مطابق اعلان کیا گیا کہ کل رمضان کا پہلا دن ہو گا، یہ اعلان عصر کے وقت ہوا تھا، اس دن کسی نے چاند دیکھنے کی گواہی نہیں دی، تو میں رات کو اس نیت سے سو گئی کہ کل کا دن رمضان کا مشکوک دن ہے، تو اگلے روز نماز فجر کے بعد مجھے علم ہوا کہ امریکہ کی انتہائی مغربی ریاست میں چاند دیکھا گیا ہے، تو اب معاملہ میرے لیے پیچیدہ ہو گیا ہے؛ کہ اگر میں اس دن کا روزہ رکھ لوں تو مجھے اس کی قضا بھی دینی ہو گی؟
ایک خاتون کو دن کے وقت معلوم ہوا کہ فلاں علاقے میں چاند نظر آ گیا ہے، تو اس نے روزہ رکھ لیا کیا اسے اس دن کی قضا دینی ہو گی؟
سوال: 291940
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ماہ رمضان کا آغاز چاند دیکھے بغیر یا ماہ شعبان کے تیس دن پورے کیے بغیر ممکن نہیں ہے، کیونکہ صحیح بخاری: (1909) اور مسلم: (1081) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (چاند دیکھ کر روزہ رکھو، اور چاند دیکھ کر ہی عیدالفطر مناؤ، اور اگر مطلع ابر آلود ہو جائے تو پھر شعبان کے تیس دن پورے کرو)۔ اس لیے فلکیاتی حساب کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
رؤیت ہلال کے لیے بنیادی طور پر خالی آنکھ سے دیکھنا معتبر ہوتا ہے، لیکن اگر جدید آلات کے ذریعے رؤیت ہلال ممکن ہو جائے تو پھر اس رؤیت پر بھی عمل کیا جائے گا، جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (106489) کے جواب میں بیان کر آئے ہیں۔
دوم:
جب امریکہ کی کسی ایسی ریاست میں چاند دیکھا جائے جس کا مطلع آپ کی ریاست والا ہی ہے، تو آپ پر بھی ان کے ساتھ روزہ رکھنا ضروری ہے، جبکہ جمہور اہل علم تو یہ بھی کہتے ہیں کہ چاہے مطلع ایک نہ بھی ہو تب بھی آپ پر روزہ رکھنا لازم ہے۔
جیسے کہ "الموسوعة الفقهية" (23/142) میں ہے کہ :
" حنفی، مالکی، اور حنبلی فقہائے کرام نیز شافعی فقہائے کرام کے ایک موقف کے مطابق یہ ہے کہ ماہ رمضان کے آغاز کو ثابت کرنے کے لیے اختلاف مطالع کا کوئی اعتبار نہیں ہے؛ لہذا اگر رمضان کے لیے کسی ایک خطے میں رؤیت ہلال ثابت ہو جائے تو تمام کے تمام علاقوں میں مسلمانوں پر روزہ رکھنا لازم ہو گا، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (چاند دیکھ کر روزہ رکھو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم ساری امت کے لیے ہے۔
اس مسئلے میں شافعی فقہائے کرام کے ہاں صحیح ترین موقف یہ ہے کہ اختلاف مطلع کا اعتبار کیا جائے گا۔" ختم شد
اور راجح موقف بھی یہی ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار ہو گا۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (50487) اور (1248) کا جواب ملاحظہ کریں۔
سوم:
چاند نظر آنے کی خبر آپ کو فجر کے بعد ملے اور صورت حال یہ ہو کہ آپ نے رات کو روزہ رکھنے کی نیت نہ کی ہو، تو اس دن آپ کو کھانے پینے سے رکنا پڑے گا، اور جمہور اہل علم کے مطابق آپ اس دن کی قضا دیں گی۔
جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب کوئی شخص یہ سمجھتے ہوئے روزہ نہ رکھے کہ صبح شعبان ہی ہے، اور چاند نظر آنے کی گواہیاں مل چکی ہوں تو پھر ایسے شخص پر پورے دن میں کھانے پینے سے رکے رہنا ضروری ہے، اور اس دن کی قضا بھی دے گا۔ یہ موقف تمام فقہائے کرام کا ہے۔" ختم شد
" المغنی " (3/34)
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (205789) کا جواب بھی دیکھیں۔
لیکن اگر آپ یہ نیت کر کے سو گئیں کہ صبح رمضان ہے اور میں نے روزہ رکھنا ہے، یعنی اگر صبح رمضان ہوا تو میں نے روزہ رکھنا ہے تو پھر راجح موقف کے مطابق آپ کا روزہ صحیح ہو گا، اور آپ سے قضا کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا، یہ احناف کا موقف ہے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا موقف بھی ہے، جیسے کہ اس کی تفصیل پہلے سوال نمبر: (70479) کے جواب میں بیان کی جا چکی ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات