میری خالہ ایک ہفتہ قبل فوت ہوئی ہیں، ان کی عمر 69 سال تھی، اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے مجھے ایک بار بتلایا تھا کہ ان پر 3 یا 4 سالوں کے رمضان کے روزے رہتے ہیں، ان کا ارادہ تھا کہ وہ عمر رسیدگی کی وجہ سے قضا کے طور پر کھانا کھلا دیں، کیونکہ ان کے لیے اس عمر میں روزے رکھنا باعث مشقت بھی تھا۔ انہوں نے یہ تمام روزے حمل اور دودھ پلانے کی وجہ سے چھوڑے تھے؛ کیونکہ حمل یا رضاعت کے دوران ان کے لیے روزہ رکھنا مشکل ہو جاتا تھا، پھر ان کی عمر ڈھلتی چلی گئی ، یا پھر ان کے لیے قضا کے طور پر روزے رکھنا مشکل ہو گیا اور وہ روزے نہ رکھ پائیں، اب جیسے کہ میں نے آپ کو پہلے بتلایا ہے کہ وہ فوت ہو چکی ہیں، تو کیا میرے لیے یہ جائز ہے کہ میں ان کی طرف سے روزے رکھ دوں؟ یا پھر جتنے دن کے انہوں نے روزے نہیں رکھے اتنے دنوں کا کفارہ ان پر لازم ہو گا؟ یا اس کے علاوہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اور اگر ان کی طرف سے روزے رکھنا جائز ہے تو کیا میں یہ کام کر سکتی ہوں؟ یا پھر لازمی ہے کہ ان کی بیٹی ہی ان کی طرف سے روزے رکھے؟
حمل اور دودھ پلانے کی وجہ سے روزے چھوڑے اور ان کی قضا نہیں دی، عمر رسیدہ ہو کر فوت ہو گئی اور روزے نہ رکھ سکی، تو کیا اس کی طرف سے روزے رکھیں جائیں گے؟
سوال: 314870
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جس وقت کوئی عورت حمل یا رضاعت کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو پھر اس کے ذمے صرف قضا ہی ہوتی ہے، چاہے اس نے یہ روزے اپنی جان پر خوف کی وجہ سے چھوڑے ہوں یا اپنے جنین کے بارے میں خوف کی وجہ سے چھوڑے ہوں۔ یہی صحیح ترین موقف ہے، جیسے کہ ہم نے اس مسئلے کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (49794) کے جواب میں بیان کی ہیں۔
دوم:
اگر آپ کی خالہ نے روزوں کی قضا میں تاخیر کسی عذر کی بنا پر کی اور پھر عمر رسیدہ ہوتی گئیں اور عمر ڈھل جانے کی وجہ سے قضا دینا ممکن نہ رہا تو پھر ان پر لازمی تھا کہ وہ ہر روزے کے عوض آدھا صاع چاول یا دیگر اناج کسی مسکین کو دے دیتیں۔
اب ان کے وارثوں پر لازم ہے کہ اس خاتون کے ترکے میں سے اتنا مال نکالیں جس سے یہ کھانا کھلایا جا سکے۔
اور اگر آپ کی خالہ عمر رسیدگی سے پہلے روزوں کی قضا دینے کی استطاعت رکھتی تھیں، لیکن انہوں نے روزوں کی قضا نہیں دی یہاں تک کہ اگلا رمضان شروع ہو گیا تو پھر ان پر یہ لازم تھا کہ ہر روزے کے عوض کھانا بھی کھلاتیں اور بلا عذر قضا میں تاخیر کا کفارہ بھی دیتیں، یہی موقف جمہور فقہائے کرام کا ہے۔
اور کفارہ یہ ہے کہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں، تاہم تاخیر کی وجہ سے ہر سال کفارہ نہیں بڑھے گا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (26865) کا جواب ملاحظہ کریں۔
لہذا آپ کی خالہ پر لازمی تھا کہ وہ ہر دن کے بدلے میں دو مساکین کو کھانا کھلائیں، ایک مسکین کو کھانا روزے کا کفارہ اور دوسرے مسکین کو کھانا بلا عذر قضا میں تاخیر کی وجہ سے ہو گا۔
چنانچہ اگر آپ کی خالہ نے ایسا نہیں کیا اور فوت ہو گئیں تو پھر ان کے ترکے میں سے یہ کفارہ ادا کیا جائے۔ یہ محتاط عمل ہو گا۔
جبکہ بعض علمائے کرام کہتے ہیں کہ قضا میں تاخیر کی وجہ سے کوئی کفارہ نہیں آتا، اس بنا پر ان کے ہاں واجب یہ ہو گا کہ ہر روزے کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (26865) کا جواب ملاحظہ کریں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ایک خاتون کے بارے میں پوچھا گیا کہ ایک عورت رمضان میں آنے والے حیض کے ایام کی قضا نہیں دیتی تھی، اور اس کے ذمے تقریباً دو سو دنوں کے روزے بن گئے، اور اب وہ عمر رسیدہ بھی ہے اور بیمار بھی ہے، اس وقت روزے نہیں رکھ سکتی، تو اس پر کیا واجب ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ:
“اگر یہ عورت ایسی ہی ہے جیسے کہ سائل نے ذکر کی ہے کہ روزے رکھنے کی وجہ سے اسے نقصان ہو گا؛ کیونکہ عمر رسیدہ ہے اور بیمار بھی ہے، تو پھر اس کی طرف سے ہر روزے کے عوض کھانا کھلایا جائے گا، چنانچہ جتنے ایام کے روزے نہیں رکھے انہیں شمار کر کے ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا۔” ختم شد
“فتاوى الصيام” (ص 121)
تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس پر تو روزے ہی واجب نہیں تھے چہ جائیکہ اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے یا کوئی اور روزے رکھے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات