جب کوئی حاجی یا عمرہ کرنے والا مسجد نبوی کی زیارت کرنے کا ارادہ کرے تو وہ مسجد کی زیارت کی نیت رکھے یا قبر نبوی کی زیارت کی؟ اور مسجد نبوی کی زیارت کے کیا آداب ہیں؟
مسجد نبوی کی زیارت
سوال: 34464
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
الشیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جب کوئی حاجی حج سے قبل یا بعد میں مسجد نبوی کی زیارت کرنا چاہیے تو وہ مسجد نبوی کی زیارت کی نیت کرے قبر نبوی کی زیارت کی نیت مت کرے؛ کیونکہ تعبدی رخت سفر قبروں کی جانب نہیں باندھا جا سکتا، یہ صرف تین مساجد کی جانب ہی باندھا جا سکتا ہے، اور وہ تین مساجد مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی ہیں، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان موجود ہے کہ: (تین مساجد کے علاوہ کسی جانب رخت سفر نہیں باندھا جا سکتا : مسجد الحرام، میری یہ مسجد، اور مسجد اقصی) بخاری: (1189) مسلم: (1397)
اس لیے جب حاجی مسجد نبوی پہنچے تو داخل ہونے کیلیے اپنا دایاں قدم پہلے رکھے اور کہے:
“بِسْمِ اللَّهِ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيْ ذُنُوْبِيْ وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ، أَعُوذُ بِاللَّهِ العَظِيمِ، وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ، وَبِسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ، مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ”
ترجمہ: اللہ کے نام سے میں داخل ہوتا ہوں، درود و سلام ہوں رسول اللہ پر، یا اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ میں عظمت والے اللہ اور اس کے کرم والے چہرے اور اس کی قدیم سلطانیت کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے۔
یہ دعا پڑھنے کے بعد وہ جس قدر چاہے نفل نماز ادا کر سکتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ نوافل ریاض الجنت میں ادا کرے، یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے منبر اور اس حجرے کے درمیان والی جگہ ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک ہے۔ تو یہاں پر نماز ادا کرنے کے بعد قبر نبوی کی زیارت کرنا چاہیے تو وہاں پورے ادب اور وقار کے ساتھ کھڑے ہو کر کہے: اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ. أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُوْلُ اللهِ حَقًّا وَأَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَةَ وَأَدَّيْتَ الَأَمَانَةَ وَنَصَحْتَ الْأُمَّةَ وَجَاهَدْتَ فِيْ اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ، فَجَزَاكَ اللَّهُ عَنْ أُمَّتِك أَفْضَلَ مَا جَزَى نَبِيًّا عَنْ أُمَّتِهِ.
ترجمہ: “اے نبی آپ پر سلامتی، اللہ کی رحمت اور برکت نازل ہوں، یا اللہ! جناب محمد پر درود نازل فرما، اور جناب محمد کی آل پر بھی جیسے کہ تو نے ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر درود نازل فرمایا، بیشک تو ہی تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ یا اللہ! جناب محمد پر برکت نازل فرما، اور جناب محمد کی آل پر بھی جیسے کہ تو نے ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر برکت نازل فرمائی، بیشک تو ہی تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالی کے سچے رسول ہیں، اور آپ نے پیغام رسالت پہنچا دیا، امانت ادا کر دی اور امت کی بھر پور خیر خواہی فرمائی، آپ نے راہ الہی میں کما حقہ جہاد بھی کیا، تو اس لیے اللہ تعالی آپ کو آپ کی امت کی جانب سے کسی بھی نبی کو اس کی امت کی جانب سے ملنے والے بدلے سے بھی اچھا بدلہ عطا فرمائے۔”
پھر قدرے دائیں جانب ہٹ کر سیدنا ابو بکر صدیق پر سلام پڑھے اور رضائے الہی کی دعا کرے۔
پھر مزید قدرے دائیں جانب ہٹ کر سیدنا عمر بن خطاب پر سلام پڑھے اور رضائے الہی کی دعا کرے، نیز دونوں کیلیے مناسب الفاظ میں دعائیں بھی کرے تو یہ بھی اچھا عمل ہے۔
کسی کیلیے یہ جائز نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرہ کو ہاتھ لگا کر یا اس کا طواف کر کے قرب الہی حاصل کرے، نیز دعا کرتے ہوئے اپنا چہرہ حجرے کی طرف مت کرے بلکہ قبلہ رخ ہو کر دعا کرے؛ کیونکہ قرب الہی اسی طریقے سے حاصل ہو گا جو اللہ تعالی اور اس کے رسول نے شریعت میں رکھا ہے، نیز عبادات کی بنیاد اتباع پر ہوتی ہے، خود ساختہ طریقوں پر عبادت نہیں ہوتی۔
خواتین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یا کسی اور کی قبر کی زیارت نہیں کر سکتیں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (قبروں کی زیارت کرنے والی خواتین پر لعنت فرمائی) اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ترمذی: (843) میں اسے صحیح کہا ہے۔
تاہم خواتین جہاں بھی ہوں وہیں پر رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام پڑھ سکتی ہیں، اور خواتین جہاں سے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود پڑھیں گی آپ تک درود و سلام پہنچ جائے گا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم مجھ پر درود بھیجو ، تم جہاں بھی ہو گے تمہارا درود مجھ تک پہنچ جائے گا ) اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزید فرمایا کہ : (بیشک اللہ تعالی کے ایسے فرشتے ہیں جو زمین پر چکر لگاتے پھرتے ہیں اور میری امت کی طرف سے مجھے سلام پہنچاتے ہیں) اس روایت کو نسائی (1282)نے بیان کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح نسائی: (1215) میں صحیح قرار دیا ہے۔
نوٹ: حدیث کے عربی الفاظ میں “زُوَّارَات “آیا ہے، اس کا معنی مبالغہ والا نہیں ہے؛ کیونکہ یہ “زُوَّار ” یعنی زائر کی جمع ہے، تو اس کا معنی ہو گا زیارت کرنے والی خواتین ۔ مزید تفصیل کیلیے آپ “زيارة القبور للنساء “ص 17 از شیخ ابو بکر ابو زید ملاحظہ کریں۔
اسی طرح مردوں کو چاہیے کہ بقیع کے قبرستان کی بھی زیارت کرے، یہ مدینہ منورہ کا قبرستان ہے، اور اس قبرستان کی زیارت کرتے ہوئے یہ دعا پڑھے:
السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ، مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لاَحِقُونَ، يَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنَّا وَمِنْكُمْ وَالْمُسْتَأْخِرِيْنَ، نَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ، اَللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُمْ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُمْ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُمْ.
ترجمہ: “مومنوں اور مسلمانوں میں سے قبرستان کے مکینو تم پر سلامتی ہو، اور بیشک ہم بھی ان شاء اللہ تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں، اللہ تعالی ہمارے اور تمہارے گزشتہ و پیوستہ سب لوگوں پر رحم فرمائے، ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت مانگتے ہیں۔ یا اللہ! ہمیں ان کے اجر سے محروم مت رکھنا اور ان کے بعد ہمیں آزمائش میں مت ڈالنا، یا اللہ! ہمیں اور انہیں بخش دے۔”
اسی طرح اگر چاہے تو جبل احد جائے اور وہاں جا کر وہ تمام واقعات اپنے ذہن میں اجاگر کرے جو غزوہ احد میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کے ساتھ اس غزوے میں ہوئے تھے کہ آپ نے یہاں جہاد کیا، پھر آزمائش آئی اور ایسے ہی اہل ایمان اور نفاق میں امتیاز سامنے آیا، نیز متعدد صحابہ کرام نے جام شہادت نوش کیا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حمزہ بن عبد المطلب سمیت تمام شہدائے احد پر سلام پڑھے ، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ یہ بھی زمىن كى سیر میں شامل ہو جس کا حکم دیا گیا ہے، وا للہ اعلم”
واللہ اعلم.
ماخذ:
کتاب: المنهج لمريد العمرة والحج ۔
متعلقہ جوابات