میری بیٹی پوچھتی ہے کہ جس وقت اللہ تعالی نے پہاڑ کے لیے تجلی فرمائی تو پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دیا، تو جس وقت اللہ تعالی ہر رات کو نزول فرماتا ہے تو پھر اس وقت اس دنیا میں کچھ بھی نہیں ہوتا؟
تجلی اور نزول اللہ تعالی کی صفات ہیں۔
سوال: 353034
جواب کا خلاصہ
-اللہ سبحانہ و تعالی کا کوئی ہم سر نہیں، نہ ہی کوئی اس کی شبیہ ہے، نہ ہی کوئی چیز اللہ تعالی جیسی ہے، نیز اللہ تعالی کی صفات پر مومن ایمان رکھتے ہیں، لیکن اللہ تعالی کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں۔ 2- تجلی اور نزول میں فرق ہے، تجلی کا معنی ظاہر ہونا ہے، اور ایسا ظاہر ہونا کہ دکھنے لگے۔ جبکہ نزول یہ ہے کہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر رات آسمان دنیا تک رات کی آخری تہائی میں نزول فرماتا ہے، اور یہ نزول اللہ تعالی کی شان کے لائق ہوتا ہے۔ مزید وضاحت اور تفصیل کے لیے مکمل جواب ملاحظہ کریں۔
Table Of Contents
اول:
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہماری اور تمام مسلمانوں کی اپنے اولاد کی ایسے تربیت کرنے کے لیے مدد فرمائے جو اللہ تعالی کی محبت اور رضا کی موجب بن جائے، نیز یہ بھی دعا گو ہیں کہ ہم اہل ایمان اور تقوی کی راہ پر گامزن رہیں، نیز اللہ تعالی ہم سب کی اولاد کو سنوار دے۔
دوم:
اللہ تعالی کی صفات مخلوق کی صفات سے مشابہت نہیں رکھتیں
سب سے پہلے آپ اپنی بیٹی کو لازمی طور پر واضح کر دیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا کوئی ہم سر نہیں، نہ ہی کوئی اس کی شبیہ ہے، نہ ہی کوئی چیز اللہ تعالی جیسی ہے، نیز اللہ تعالی کی صفات پر مومن ایمان رکھتے ہیں، لیکن اللہ تعالی کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں۔
اور انہیں یہ بھی بتلائیں کہ اللہ تعالی کی قدرت ایسی ہے کہ کوئی بشر ایسی قدرت نہیں رکھتا، چنانچہ اللہ تعالی سب کی سنتا بھی ہے اور سب کو دیکھتا بھی ہے، اللہ سبحانہ و تعالی جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے؛ کیونکہ وہی عظیم خالق ہے۔
تو جب یہ بتلایا گیا کہ اللہ تعالی آسمان دنیا تک نزول فرماتا ہے تو مومن اللہ تعالی کے نازل ہونے پر ایمان رکھتا ہے، لیکن اللہ تعالی کا نزول لوگوں کے نازل ہونے کی طرح نہیں ہو گا، بلکہ اللہ تعالی کے نزول کی کیفیت کا بھی ہمیں علم نہیں ہے، نہ ہی کسی بشر میں اتنی سکت ہے کہ نزولِ الہی کی کیفیت کا ادراک کر سکے۔
سوم:
تجلی اور نزول یکساں نہیں بلکہ ان میں فرق ہے۔
آپ اپنی بیٹی کو واضح کر کے بتلائیں کہ تجلی اور نزول کے درمیان کافی فرق ہے۔
چنانچہ تجلی کا معنی ظاہر ہونا ہے، اور ایسا ظاہر ہونا کہ دکھنے لگے۔
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنْ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنْ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكّاً وَخَرَّ مُوسَى صَعِقاً
ترجمہ: موسیٰ نے عرض کیا: ’’پروردگار! مجھے اپنا آپ دکھلا دیجیے کہ میں ایک نظر تجھے دیکھ سکوں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔ البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر یہ اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تو بھی مجھے دیکھ سکے گا۔‘‘ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے۔ [الاعراف: 143]
“اس آیت کی تفسیر میں ربیع بن انس کہتے ہیں: فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكّاً وَخَرَّ مُوسَى صَعِقاً ترجمہ: پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے۔ [الاعراف: 143]یعنی یہ اس وقت ہوا جب پردہ ہٹایا گیا اور نور دیکھا گیا تو پہاڑ بھی ریت کے ٹیلے جیسا ٹیلہ بن گیا، بعض کہتے ہیں کہ: { جَعَلَهُ دَكّاً} یعنی ریزہ ریزہ کر دیا۔
مجاہد رحمہ اللہ فرمانِ باری تعالی: وَلَكِن انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنْ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي یعنی: “البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، اگر یہ اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تو بھی مجھے دیکھ سکے گا۔” کے متعلق کہتے ہیں: کہ پہاڑ آپ سے بڑا بھی ہے اور اس کی جسامت بھی آپ سے بہت مضبوط ہے، چنانچہ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ یعنی: ” پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی کی ” اور موسی نے پہاڑ کو دیکھا کہ پہاڑ بھی اللہ تعالی کی تجلی کے وقت اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکا اور پھر پہاڑ تجلی کے آغاز میں ہی ریزہ ریزہ ہو گیا ہے، اب جب موسی علیہ السلام نے پہاڑ کے ساتھ جو کچھ ہوا دیکھا اور پھر خود بھی بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: فرمانِ باری تعالی: جَعَلَهُ دَكّاً یعنی: ” اسے ریزہ ریزہ کر دیا ۔” کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے پہاڑ کی جانب دیکھا تو پہاڑ مٹی کا صحرا بن گیا۔” ختم شد
مأخوذ از: “تفسیر ابن کثیر” (3/471)مزید دیکھیں: “تفسیر طبری” (13/97) اور اس کے بعد والے صفحات کا مطالعہ کریں۔
ایسے ہی اس کتاب کا مطالعہ بھی مفید ہو گا: “صفات الله عز وجل الواردة في الكتاب والسنة”، از علوی سقاف حفظہ اللہ : (92)
جبکہ نزول یہ ہے کہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ہر رات آسمان دنیا تک رات کی آخری تہائی میں نزول فرماتا ہے، اس کا تذکرہ احادیث میں تواتر اور کثرت کے ساتھ ملتا ہے، نیز یہ نزول اللہ تعالی کی شان کے لائق ہوتا ہے، ہم میں سے کوئی بھی اس کی کیفیت بیان کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا، بلکہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، نیز یہ مخلوق کے نزول جیسا بھی نہیں ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو؛ کہ کوئی چیز ذات باری تعالی سے بلند ہو جائے، بلکہ اللہ تعالی آسمان دنیا تک نزول فرماتے ہیں، اور اللہ تعالی عرش پر سب مخلوقات سے بلند بھی ہوتا ہے، کوئی بھی چیز اللہ تعالی کی ذات سے بلند نہیں ہو تی۔
مذکورہ کیفیتِ نزول مخلوق کے نزول سے یکسر مختلف ہے، کوئی بندہ بھی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا؛ چنانچہ کسی بھی انسان کا وہم یا خیال تک اس کیفیت کو ذہن میں نہیں لا سکتا؛ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی کی شان ہے کہ وہ: “اس تک نہ وہم پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی کسی کا فہم” اسی بات کا ذکر اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے کہ: {وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا } ترجمہ: اور وہ اللہ تعالی کا علمی احاطہ نہیں کر سکتے۔[طہ: 110]
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (12290) اور (20081)کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات