میں نے سنا ہے کہ عذاب قبر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی شخص رات کو قیام اللیل کرے لیکن دن میں اس پر عمل نہ کرے، تو کیا اس سے مراد ایسا شخص ہے جو قرآن کریم پر سرے سے عمل نہیں کرتا، یا پھر اس میں قرآن کریم کی بعض ہدایات پر عمل نہ کرنا بھی شامل ہے؟
قرآنی تعلیمات پر عمل نہ کرنے والے قاری قرآن کا انجام
سوال: 399630
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب میں دیکھا: (جس شخص کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا یہ وہ شخص نے جس نے قرآن یاد کیا اور پھر بھلا دیا، اور یہ شخص فرض نمازوں سے بھی سویا رہتا تھا۔) اس روایت کو بخاری: (1143) نے نقل کیا ہے جو کہ صحیح بخاری: (7047) ہی کی ایک طویل حدیث کا حصہ ہے۔
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی یہ مکمل حدیث سوال نمبر: (11110) کے جواب میں ملاحظہ کریں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (46068 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
تو اس حدیث میں قرآن کریم پر عمل نہ کرنا مراد ہے، جیسے کہ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں: “قرآن کے الفاظ یاد کرنا چھوڑ دے اور اس کے مطلب پر عمل نہ کرے، لیکن اگر کوئی شخص الفاظ تو یاد نہ رکھ پائے لیکن اس کے مطلب پر عمل کرے تو یہ شخص قرآن کو چھوڑنے والا نہیں ہے، لیکن ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ ایسے شخص کی قیامت کے دن کوئی حجت یا دلیل نہیں ہو گی۔” ختم شد
“شرح صحيح البخارى” از ابن بطال: (3/ 135)، (9/ 564)
علامہ طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سوئے رہنے سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم پر توجہ نہیں دی۔
یہاں حرف جر “عن” اسی طرح ہے جیسے اللہ تعالی کے اس فرمان میں حرف جر “عن” ہے، الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ترجمہ: جو لوگ اپنی نمازوں کے متعلق سستی کرتے ہیں۔[الماعون: 5] یعنی اتنی سستی کہ نماز ہی چھوڑ دی، نمازوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہے، ایسی حرکت منافقوں اور فاسقوں میں پائی جاتی ہے۔
تو رات کو سوئے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ: رات کو قرآن کریم کی تلاوت نہیں کی، نہ ہی اس کے ذمے اوامر و نواہی کی شکل میں واجبات کے متعلق غور و فکر کیا بالکل ایسے ہی جیسے منافق اور فاسق قسم کے لوگ کرتے ہیں، چنانچہ اگر رات کو اس کی کیفیت ایسی ہی ہے تو یہ شخص دن میں قرآن پر عمل بھی نہیں کرے گا۔
اس تفصیل کی تائید ہمیں صحیح بخاری کی ایک اور روایت سے بھی ملتی ہے کہ: (جس شخص کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا یہ وہ شخص نے جس نے قرآن یاد کیا اور پھر بھلا دیا، اور یہ شخص فرض نمازوں سے بھی سویا رہتا تھا۔)
لیکن اگر کوئی شخص قرآن سے بے رغبتی کی وجہ سے سویا نہیں رہتا، یا کوتاہی اور سستی کا شکار ہو جاتا ہے تو وہ شخص اس وعید سے خارج ہے۔” ختم شد
“شرح المشكاة” از طیبی : (9/ 3009-3010)
تو حاصل کلام یہ ہے کہ:
عذاب کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ: انسان قرآن نہ پڑھے اور سویا رہے، قرآن پر عمل نہ کرے اور قرآن کریم پر توجہ نہ دے۔
لیکن اگر کوئی شخص سستی اور کاہلی کا شکار ہے تو وہ اس وعید میں شامل نہیں ہے۔
دوم:
مومن کو قرآن پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش میں لگے رہنا چاہیے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: اِتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ
ترجمہ: تمہاری طرف تمہاری رب کی طرف سے جو نازل کیا گیا ہے اسی کی اتباع کرو، اللہ کے علاوہ کسی اور کی پیروی مت کرو، تم بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔[الاعراف: 3]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ
ترجمہ: جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے وحی کیا گیا ہے اس کی پیروی کریں، اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، اور آپ مشرکوں سے اعراض کریں۔[الانعام: 106]
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّى يَحْكُمَ اللَّهُ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
ترجمہ: جو آپ کی طرف وحی کیا جا رہا ہے اس کی اتباع کریں اور صبر کریں تا آں کہ اللہ تعالی فیصلہ فرما دے، اور وہی بہترین فیصلے کرنے والا ہے۔[یونس: 109]
سیدنا نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے ایسے لوگوں کو لایا جائے گا جو اس پر عمل کرتے تھے، سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران اس کے آگے آگے ہوں گی۔ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سورتوں کے لئے تین مثالیں دیں جن کو(سننے کے بعد)میں (آج تک) نہیں بھولا، آپ نے فرمایا: “جیسے وہ دو بادل ہیں یا دو کالے سائبان ہیں جن کے درمیان روشنی کی چھید ہے ، یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑنے والے پرندوں کی دو ٹولیاں ہیں، وہ ا پنے پڑھنے اور ماننے والے کا دفاع کریں گی۔) مسلم: (805)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: “ہماری زندگی میں ایسا مرحلہ بھی تھا کہ چھوٹے بچے کو بھی پہلے ایمان اور پھر قرآن سکھایا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کوئی سورت نازل ہوتی تو اس سورت کے حلال و حرام سے متعلقہ احکامات سیکھ لیتا تھا، بلکہ اس سورت سے متعلق جن جن چیزوں کی واقفیت حاصل کرنا ضروری ہوتا تھا ان سب کے بارے میں اسی طرح سیکھ لیتا تھا جیسے تم آج قرآن پڑھنا جانتے ہو” پھر آپ نے مزید کہا: “میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو قرآن پورا سیکھ لیتے ہیں، بلکہ سورت فاتحہ سے لے کر آخری لفظ تک پڑھ جاتے ہیں لیکن پھر بھی اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ قرآن میں حکم کہاں ہے اور ممانعت کہاں ہے! نہ ہی اسے دیگر متعلقہ چیزوں سے واقفیت ہوتی ہے، وہ قرآنی الفاظ کو ایسے منہ سے جھاڑتے ہیں جیسے ناکارہ کھجور جھاڑی جاتی ہے۔” اس اثر کو امام حاکم نے “المستدرك على الصحيحين”(1/ 91)، (101) میں روایت کیا ہے۔
فضیل بن عیاض کہتے ہیں:
“قرآن اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے لیکن لوگوں نے قرآن کریم کی صرف تلاوت کو عمل سمجھ لیا۔ کہا گیا: تو قرآن پر عمل کیسے کریں گے؟ آپ نے بتلایا: جسے قرآن نے حلال کہا ہے اسے حلال سمجھیں، اور جس کو حرام قرار دیا ہے اسے حرام سمجھیں، احکامات کی تعمیل کریں، نواہی سے بچیں اور جہاں سمجھ نہ آئے وہاں توقف اختیار کریں۔” ختم شد
“اقتضاء العلم العمل” از خطیب بغدادی: (ص76)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
یہی وجہ ہے کہ قرآن والے وہ لوگ ہیں جو قرآن جانتے بھی ہیں اور قرآنی ہدایات پر عمل بھی کرتے ہیں، اگرچہ انہوں نے قرآن زبانی یاد نہ بھی کیا ہوا ہو، لہذا اگر کوئی شخص قرآن کا حافظ تو ہو لیکن قرآن نہ سمجھے اور نہ ہی اس پر عمل کرے تو وہ صاحب قرآن نہیں ہے اگرچہ قرآنی الفاظ کی ادائیگی تیر کی طرح سیدھی کرے” ختم شد
“زاد المعاد في هدي خير العباد” (1/402)
اسی مفہوم میں دیگر آثار پڑھنے کے لیے آپ ڈاکٹر خالد السبت کی کتاب: “الخلاصة في تدبر القرآن الكريم” (ص68 – 72) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات