کیا کوئی گناہ کرنے والا شخص گناہ کر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے میرے لیے یہی تقدیر میں لکھا تھا؟
گناہوں کے ارتکاب یا واجبات ترک کرنے کے لیے تقدیر کو بطور عذر پیش کرنے کا حکم
سوال: 49039
جواب کا خلاصہ
1- گناہوں کے ارتکاب یا نیکیوں کو ترک کرنے کے لیے تقدیر کو دلیل بنانا شرعی، عقلی اور زمینی شواہد کی رو سے بالکل بے بنیاد بات ہے۔ 2- جس وقت انسان کو کوئی تکلیف پہنچے مثلاً: غربت، بیماری، قریبی رشتہ دار کی وفات، کھیتی تباہ ہو جانا، مالی نقصان ہو جانا، اور قتل خطا وغیرہ ہو تو تقدیر کو دلیل بنا سکتے ہیں۔ 3- کچھ علمائے کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ تائب ہو جائے اور کوئی توبہ کرنے کے بعد ماضی کی غلطی پر عار دلائے تو یہ شخص بھی تقدیر کو اپنے لیے دلیل بنا سکتا ہے۔
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے بعض گناہ گار لوگ اپنی غفلت اور غلطی کا سبب یہ بتلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز ان کے مقدر میں لکھ دی تھی، اس لیے انہوں نے یہ کام اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ تقدیر کی وجہ سے کیا ہے، لہذا انہیں ملامت کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
ان کا یہ استدلال کسی صورت درست نہیں ہے۔ کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تقدیر پر ایمان گناہ گار کو اپنے فرائض سے پہلو تہی کرنے یا گناہ کرنے کا عذر فراہم نہیں کرتا، اس پر مسلمانوں اور تمام اہل دانش کا اجماع ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سب مسلمانوں، تمام مذاہب کے پیروکاروں، اور تمام اہل دانش کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی بھی تقدیر کو گناہ کرنے کے لیے عذر کے طور پر استعمال نہیں کر سکتا۔ اگر بات کو ایک لمحے کے لیے مان لیا جائے تو ہر ایک کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ وہ جو کچھ اس کے دل میں آئے کر گزرے، لوگوں کو مار ڈالے، ان کی دولت چھین لے اور زمین پر طرح طرح کے فسادات برپا کرے اور پھر تقدیر کو اپنی بد عملی کے جواز کے لیے استعمال کرے۔ بلکہ تقدیر کو اپنی بد عملی کے لیے دلیل بنانے والا شخص ہی اگر کسی کے ظلم کا شکار ہو جائے اور ظالم اپنی کارستانی کے جواز کے لیے تقدیر کو پیش کرے تو خود یہ شخص بھی اسے قبول نہیں کرے گا۔ الٹا ظالم کو کوسنے لگے گا، لہذا اس تناقض سے ہی معلوم ہو رہا ہے کہ یہ موقف غلط ہے، اس لیے کہ تقدیر کو اپنی بد اعمالیوں کے لیے بطور حجت پیش کرنا بدیہی طور پر غلط ہے۔" ختم شد
مجموع الفتاوی: ( 8/179)
تقدیر کو گناہوں کے ارتکاب اور ترک اطاعت الہی کے لیے عذر بنا کر پیش کرنا شرعاً اور عقلا ہر دو اعتبار سے غلط ہے، چنانچہ اس حوالے سے شرعی دلائل درج ذیل ہیں:
1- اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلا ءَابَاؤُنَا وَلا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلا تَخْرُصُونَ
ترجمہ: یہ مشرک کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے، نہ ہمارے اسلاف اور نہ ہم کسی چیز کو حرام قرار دیتے، اسی طرح ان سے پہلے آنے والوں نے بھی انکار کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے غضب کا مزہ چکھ لیا۔ تم کہو: تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے تو ہمارے سامنے پیش کرو، تم لوگ محض خیالی باتوں کی پیروی کرتے ہو اور محض قیاس آرائیاں کرتے ہو۔ (سورۃ الانعام: 148)
ان مشرکوں نے تقدیر کو اپنے شرک کے لیے بہانے کے طور پر پیش کیا، اگر تقدیر کو دلیل کے طور پر استعمال کرنا ان کے لیے درست ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب مت دیتا۔ لہٰذا جو شخص تقدیر کو گناہوں اور برائیوں کے لیے بطور سبب اور بہانہ پیش کرتا ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ کفار کے نظریے کو صحیح قرار دے اور اللہ تعالی کی طرف سے ان کافروں کو ملنے والے عذاب پر -نعوذ باللہ-اللہ تعالی کو ظالم قرار دے۔
2- اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
رُسُلا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ لِئَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
ترجمہ: ہم نے انہیں بشارت دینے والے اور ڈرانے والے رسول بنایا ہے، تاکہ لوگوں کے پاس رسول بھیجنے کے بعد اللہ پر کوئی حجت باقی نہ رہے، اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔ (سورۃ النساء: 165)
اگر تقدیر کو گناہوں اور نافرمانیوں پر دلیل اور عذر کے طور پر پیش کرنا صحیح ہوتا تو رسولوں کو بھیجنے کے بعد حجت تمام نہ ہوتی بلکہ حقیقت میں رسولوں کو بھیجنے کا کوئی فائدہ ہی نہ ہوتا۔ [کیونکہ رسولوں کو بھیجنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ راہ راست پر رہیں، اور جب لوگوں نے راہ راست پر آنا ہی نہیں تو حجت تمام نہ ہوئی۔ مترجم]
3- اللہ تعالیٰ نے بندے کو کچھ چیزوں کا حکم بھی دیا ہے اور کچھ چیزوں سے روکا بھی ہے، لیکن اللہ تعالی نے اسے ایسا کوئی حکم نہیں دیا جس کی تعمیل کرنے کی بندے میں صلاحیت نہ ہو، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ترجمہ: جس قدر ہو سکے احکامات الہیہ پر عمل کرو ۔ (سورۃ التغابن:16)
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا ترجمہ: اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں ٹھہراتا۔ (سورۃ البقرۃ: 286)
اگر بندے کو ہر کام کے کرنے پر مجبور کیا جاتا تو وہ ان احکامات کا بھی پابند ہوتا جنہیں کرنے کی وہ صلاحیت نہیں رکھتا، جو کہ باطل امر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر بندے سے کوئی گناہ لاعلمی یا جبر کی وجہ سے سر زد ہو گیا تو بندے پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے؛ کیونکہ بندے کا عذر تھا۔ چنانچہ اگر تقدیر کا بہانہ بنا کر گناہ کرنا جائز ہوتا تو پھر جاہل اور جبرا کام کرنے والے کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا، اسی طرح جان بوجھ کر اور غلطی سے گناہ کرنے والے میں کوئی فرق نہ ہوتا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بدیہی طور پر عقل یہ سمجھتی ہے کہ ان دونوں میں واضح فرق ہے۔
4- تقدیر اللہ تعالیٰ کا ایک پوشیدہ راز ہے جس کا علم کسی بھی مخلوق کو کام کے ہو جانے کے بعد ہوتا ہے، جبکہ انسان کا کسی کام کو کرنے کا ارادہ اس کام سے پہلے ہوتا ہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ انسانی ارادہ اللہ تعالی کے ہاں لکھی ہوئی تقدیر کے مطابق نہیں ہوتا؛ کیونکہ اسے تو علم ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی تقدیر میں کیا لکھا ہے، لہذا کسی شخص کا یہ دعوی کرنا کہ اللہ تعالی نے اس کے لیے فلاں فلاں کام تقدیر میں لکھے ہوئے تھے تو یہ دعوی ہی باطل ہے؛ کیونکہ ایسا شخص تو علم غیب کا دعوی کر رہا ہے، اور علم غیب تو صرف اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔ لہذا تقدیر کو پیش کر کے گناہ کا جواز کشید کرنے کا عمل نہایت پتلا اور رقیق ہے؛ کیونکہ انسان کو جس چیز کا علم ہی نہیں ہے تو وہ کیسے اسے اپنے لیے دلیل بنا سکتا ہے؟
5- جرم کے ارتکاب کے لیے تقدیر کو بہانہ اور دلیل کے طور پر استعمال کرنے سے یہ لازم آتا ہے کہ شرعی احکامات، قیامت کے دن حساب، آخرت کے دن دوبارہ جی اٹھنا، ثواب اور عقاب کی باتیں ساری فضول ہیں۔
6- اگر تقدیر گناہگاروں کے لیے حجت ہوتی تو اہل جہنم اس کو ہر مرحلے میں حجت کے طور پر استعمال کرتے کہ جب جہنمی جہنم کو دیکھیں گے اور اس میں داخل ہونے کا گمان کریں گے اور اسی طرح تب بھی جب وہ جہنم میں داخل ہو جائیں گے اور اسی طرح ان کی سرزنش کے وقت بھی تقدیر کو حجت کے طور پر پیش کریں! لیکن حقیقت میں جہنمی تقدیر کو حجت نہیں بنائیں گے، بلکہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ کہیں گے:
رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمیں معمولی سا موقع دے دے تاکہ ہم تیری دعوت کو قبول کر لیں اور رسولوں کی اتباع کر لیں۔ (سورۃ ابراہیم:44)
اسی طرح جہنمی یہ بھی کہیں گے:
رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا
ترجمہ: اے رب! ہماری بد بختی ہم پر غالب آ گئی۔ (سورۃ المومنون:106)
ایک اور مقام پر ان کی یہ بات بھی نقل فرمائی کہ:
لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ
ترجمہ: اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو ہم دوزخیوں میں سے نہ ہوتے۔ (سورۃ الملک:10)
ایسے ہی جہنمی اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے:
قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ
ترجمہ :وہ کہیں گے کہ ہم نمازیوں میں شامل نہیں تھے۔‘‘ (سورۃ المدثر: 43)
اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں جو جہنمی کہیں گے، لیکن تقدیر کو بطور دلیل پیش نہیں کریں گے۔
اگر تقدیر کو جرائم کے ارتکاب کے بہانے کے طور پر استعمال کرنا مناسب ہوتا تو وہ اسے بہانے اور عذر کے طور پر ضرور پیش کرتے۔ کیونکہ انہیں کسی ایسی چیز کی اشد ضرورت ہو گی جو انہیں جہنم کی آگ سے بچا سکے۔
7- اگر تقدیر کو بطور عذر پیش کرنا درست ہوتا تو ابلیس کے لیے یہ زبردست دلیل ہوتی جس نے کہا تھا:
قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ
ترجمہ: اس نے کہا کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے اس لیے میں انہیں گمراہ کرنے کے لیے تیرے راستے پر بیٹھوں گا۔ " (سورۃ الاعراف:16) [یعنی: ابلیس نے گمراہ کرنے کے لیے خود کوشش کی ہے، یہ نہیں کہا کہ: وہ تقدیر میں لکھے ہوئے کی وجہ سے گمراہ ہو جائیں گے۔ مترجم]
اگر تقدیر کو بطور عذر پیش کرنا صحیح ہوتا تو اللہ کا دشمن فرعون اور کلیم اللہ موسیٰ علیہ السلام دونوں ہی یکساں ایک درجے پر ہوتے!!
8- اس موقف کی اس بات سے بھی تردید ہوتی ہے کہ: ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اپنے دنیاوی امور میں صرف ایسی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے اور انہیں حاصل کرنے تک کوشش کرتا ہے جو اسے بھاتی ہیں، لیکن آپ کو کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا کہ جو اپنے دنیاوی مفادات کو چھوڑ کر ایسے کام کرے جس سے اسے دنیا میں نقصان ہو اور کہے کہ تقدیر میں ایسے ہی لکھا تھا! تو پھر انسان دینی امور میں مفید چیزوں کو چھوڑ کر نقصان دہ اور ضرر رساں چیزوں کو اپنا کر تقدیر کا بہانہ کیوں بناتا ہے؟!
اسے سمجھنے کے لیے آپ ایک اور مثال بھی لیں: اگر کوئی شخص کسی مخصوص علاقے میں جانے کے لیے سفر کرنا چاہتا ہے، اس علاقے کے دو راستے ہیں ایک راستہ پر امن ہے اور دوسرا راستہ خطرناک اور ناہموار ہے، اس راستے میں چور، ڈاکے اور قتل و غارت بھی ہوتا ہے، تو وہ کون سا راستہ اختیار کرے گا؟
یقیناً پہلا راستہ ہی اس کا اولین انتخاب ہو گا، تو اخروی معاملات میں جنت کے راستے کو چھوڑ کر جہنم کے راستے پر کیوں چلتا ہے؟
9- جو شخص تقدیر کے بارے میں نا معقول بات کرتا ہے اس کی تردید اس کے اپنے نظریے کے مطابق اس طرح کی جا سکتی ہے کہ : اس سے کہا جائے کہ تم شادی نہ کرنا۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہاری تقدیر میں اولاد لکھی ہے تو وہ تمہیں ضرور ملے گی ، اور اگر آپ کی قسمت میں اولاد نہیں ہے تو آپ کو کبھی بھی اولاد کی نعمت نہیں ملے گی۔ اسی طرح اسے کہا جائے کہ تم کبھی بھی نہ کھانا کھاؤ اور نہ پانی پیو؛ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے پیٹ بھرنا اور پانی سے سیراب ہونا مقدر کیا ہوا ہے تو یہ ضرور ہو گا، ورنہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ اور اگر کوئی خوں خوار جانور تم پر حملہ آور ہو تو اس سے دور مت بھاگنا؛ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے نجات اور حفاظت کا فیصلہ کر لیا ہے تو یقیناً تم بچ جاؤ گے اور اگر اس نے تمہیں بچانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے تو تمہیں بھاگنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اور اگر بیمار پڑ جاؤ تو علاج نہ کرواؤ، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے صحت لکھی ہوئی ہے تو تم شفا یاب ہو جاؤ گے اور اگر اللہ تعالی نے تمہارے لیے شفا نہیں لکھی تو تم علاج کرواؤ بھی تو تمہیں شفا نہیں ملے گی۔
کیا وہ شخص ہماری بات مان لے گا؟ اگر وہ ہماری بات مان لیتا ہے تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اس کی عقل اس کا ساتھ نہیں دے رہی ، اور اگر وہ ہماری بات کی مخالفت کرتا ہے تو ہمیں معلوم جائے گا کہ اس کا موقف غلط ہے اور اس کی دلیل بھی بے بنیاد ہے۔
10- جو شخص تقدیر کو گناہوں کے عذر کے طور پر پیش کرتا ہے وہ اپنے آپ کو دیوانے اور بچوں کے برابر قرار دیتا ہے جو مکلّف نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی گرفت ہو گی، لیکن اگر اس شخص کے ساتھ پاگلوں اور بچوں جیسا سلوک کوئی کرے تو کبھی بھی اسے قبول نہیں کرے گا۔!!
11- اگر ہم اس موقف کو مان لیں تو استغفار ، توبہ، دعا، جہاد، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے باز رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، سب امور فضول اور لا یعنی قرار پاتے ہیں۔
12- اگر تقدیر برائیوں اور جرائم کا عذر بن سکتی ہوتی تو لوگوں کا کوئی بھی کام صحیح سے نہ ہوتا، ہر طرف فساد اور انارکی پھیل چکی ہوتی، اسی طرح حدود، تعزیرات اور سزا کے تصور کی بھی ضرورت نہ رہتی؛ کیونکہ مجرم تقدیر کو عذر کے طور پر پیش کر کے اپنی جان چھڑانے میں کامیاب ہو جاتا۔ ہمیں ظالموں اور لٹیروں کو سزائیں دینے کی ضرورت نہ ہوتی، عدالتیں کھولنے اور انصاف کے قیام کی ضرورت نہ رہتی ؛ کیونکہ جو کچھ بھی ہوا وہ اللہ کی تقدیر سے ہو رہا ہے، انسان کی اپنی مرضی اس میں ہے ہی نہیں! حالانکہ یہ بات کوئی بھی صاحب عقل و خرد تسلیم نہیں کر سکتا۔
13- تقدیر کو بطور عذر پیش کرنے والا شخص یہ بھی کہتا ہے کہ: ہمارے جرائم کا مواخذہ نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ ہم جرائم اپنی مرضی سے نہیں کر رہے بلکہ اللہ تعالی نے ہماری تقدیر میں لکھے ہوئے اس لیے ہم جرائم کرتے ہیں، تو جو کام اللہ تعالی نے خود ہم پر لکھ دیا ہے اس کا مواخذہ کیسے کر سکتا ہے؟
تو اس اعتراض کے جواب میں اسے کہا جائے گا: سابقہ لکھے ہوئے کی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ نہیں ہو گا، بلکہ ہمارا مواخذہ ہمارے اپنے عمل اور کرتوت کی وجہ سے ہو گا؛ کیونکہ ہمیں اس بات کا حکم نہیں دیا گیا کہ ہم وہی کریں جو اللہ تعالی نے ہماری تقدیر میں لکھا ہے، یا ہمارے مقدر میں رکھا ہے، بلکہ ہمیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ ہم وہ کریں جس کا اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے، لہذا ہم سے مطلوب کیا ہے اس بات میں اور ہمارے لیے مکتوب کیا ہے اس بات میں فرق ہے؛ کیونکہ ہمارے لیے مکتوب ہم سے پوشیدہ ہے ہمیں اس کا علم ہی نہیں ہے، اور جو چیز ہم سے مطلوب ہے اس کا اللہ تعالی نے ہمیں حکم بھی دیا ہے اور ہمیں اس کا علم بھی ہے۔
اب اگر اللہ تعالی کو کسی چیز کے رونما ہونے کا علم ہے اور پھر اللہ تعالی نے اسے لکھ بھی دیا ہے، تو یہ پھر بھی ان کی حجت نہیں بن سکتی؛ کیونکہ اللہ تعالی کے علم کی یہ شان ہے کہ اللہ تعالی ہر چیز کو جانتا ہے اور مخلوقات کے ہونے والے افعال کو بھی جانتا ہے، نیز اللہ تعالی کے علم اور پھر اسے لکھ دینے سے کسی قسم کا کوئی جبر بھی لازم نہیں آتا، تقدیر کے معاملے کو سمجھنے کے لیے اس کی ایک حقیقی مثال لیں: اگر کسی استاد کو اپنے کچھ طلبہ کے بارے میں اندازہ ہو جائے کہ ان کی سستی اور عدم توجہ کی وجہ سے اس سال امتحانات میں پاس نہیں ہو سکیں گے، اور پھر واقعی وہ طلبہ پاس نہ ہوں جیسے کہ استاد کا اندازہ تھا، تو کیا کوئی صاحب عقل و خرد یہ کہہ سکتا ہے کہ استاد نے طلبہ کو زبردستی فیل کیا ہے؟ یا یہ طالب علم ہی کہہ دے کہ: میں اس لیے پاس نہیں ہوا کہ استاد کو علم تھا کہ میں پاس نہیں ہوں گا؟!
تو خلاصہ یہ ہے کہ: تقدیر کو گناہوں کے ارتکاب اور ترک واجبات کے لیے عذر بنا کر پیش کرنا شرعاً، عقلا اور حقائق کی رو سے بالکل بے سود بات ہے۔
یہاں اس بات کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے کہ ایسے لوگوں کی اکثریت اپنے نظریات اور عقائد کی وجہ سے ایسی باتیں نہیں کرتی بلکہ محض ہوس پرستی میں ایسی باتیں کرتی ہے؛ اسی لیے کچھ اہل علم نے ایسی باتیں کرنے والوں کے بارے میں بڑی شاندار بات کہی کہ: "تمہیں نیکی کرنی پڑے تو قدری بن جاتے ہو، اور جب گناہ کرنا ہو تو جبری بن جاتے ہو! یعنی جو مذہب تمہاری ہوس کے مطابق ہو وہی اپنا لیتے ہو!!" مجموع الفتاوی: (8/107) یعنی جب نیکی کرنی ہو تو اپنی طرف نسبت کرتا ہے کہ میں نے نیکی کی ہے، اس وقت یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالی نے میری تقدیر میں نیکی لکھی تھی، لیکن جب گناہ کرے تو یہ کہہ دیتا ہے کہ: گناہ میری تقدیر میں لکھا تھا اس لیے گناہ کر گزرا!!
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تقدیر کو حجت بنانے والوں کے بارے میں کہا ہے:
"اگر یہ لوگ اپنے ان نظریات پر پکے رہیں تو یہ یہود و نصاری سے بھی بڑے کافر ہوں گے۔" ختم شد
( مجموع الفتاوى 8 / 262 )
اس لیے کسی بھی انسان کے لیے یہ روا نہیں ہے کہ اپنی نافرمانیوں اور گناہوں کو جواز بخشنے کے لیے تقدیر کو بطور عذر پیش کرے۔
ہاں تقدیر کو بطور حجت اس وقت پیش کیا جا سکتا ہے جس وقت انسان کو کوئی تکلیف پہنچے مثلاً: غربت، بیماری، قریبی رشتہ دار کی وفات، کھیتی تباہ ہو جانا، مالی نقصان ہو جانا، اور قتل خطا وغیرہ ہو تو تقدیر کو دلیل بنا سکتے ہیں؛ اس صورت میں تقدیر کو حجت بنانا اللہ تعالی کے رب ہونے پر کامل رضا کا اظہار ہے، اس لیے تقدیر کو بطور حجت مصیبت میں پیش کیا جاتا ہے معصیت میں نہیں؛ کیونکہ "سعادت مند شخص معصیت پر استغفار کرتا ہے اور مصیبت پر صبر کرتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے کہ: فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ ترجمہ: پس آپ صبر کریں؛ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور اپنے گناہ کی بخشش طلب کریں۔ [غافر: 55] ، جبکہ شقاوت مند شخص مصیبتوں پر جزع و فزع کرتا ہے اور معصیتوں پر تقدیر کو بطور عذر پیش کرتا ہے۔"
اسے آپ درج ذیل مثال سے سمجھیں:
ایک شخص تیر رفتار اور غیر محتاط ڈرائیونگ کرتے ہوئے ٹریفک حادثے کا سبب بنا، اسے اس پر ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑا، اور اس کی بھر پور تفتیش بھی ہوئی، اس شخص نے تقدیر کو بطور عذر پیش کیا تو کوئی بھی اس کی اس بات کو قبول نہیں کرے گا۔ وہیں پر ایک اور شخص کی کھڑی گاڑی کو کسی نے ٹکر مار دی، حالانکہ اس نے گاڑی کو چلایا ہی نہیں تھا، تو اسے کسی نے گاڑی کھڑی کرنے پر ملامت کی تو اس نے آگے سے کہہ دیا کہ تقدیر میں ایسا ہونا لکھا تھا تو اس کی یہ بات صحیح ہے۔
تو مطلب یہ ہے کہ: جو کام انسان اپنے ذاتی ارادے اور مکمل اختیار سے کیا ہو اس کے لیے تقدیر کو حجت نہیں بنا سکے گا، لیکن جو کام انسان کے ارادے اور اختیار سے مکمل باہر ہوں تو ایسے میں تقدیر کو حجت بنانا صحیح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام ، سیدنا موسی علیہ السلام پر غالب آ گئے تھے ، جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں کے مباحثے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: (آدم اور موسی علیہماالسلام کی باہمی بات چیت ہوئی تو آدم علیہ السلام کو موسی علیہ السلام نے کہا: آپ وہی آدم ہیں جنہیں ان کی خود کی غلطی نے جنت سے نکال دیا تھا؟ تو آدم علیہ السلام نے کہا: آپ وہی موسی ہو کر یہ بات کر رہے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنی رسالت اور کلام سے نوازا تھا؟ پھر آپ مجھے ایسی بات پر ملامت کر رہے ہیں جو اللہ تعالی نے میری تخلیق سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا؟ اس طرح آدم علیہ السلام موسی علیہ السلام پر غالب آ گئے۔) مسلم: (2652)
اس حدیث میں آدم علیہ السلام نے اپنے گناہ کے عذر کے طور پر تقدیر کو پیش نہیں کیا، اگرچہ کچھ لوگ جو حدیث مبارکہ کو سمجھ نہیں سکے وہ یہی کہتے ہیں، اسی طرح موسی علیہ السلام نے بھی آدم علیہ السلام کو ان سے ہونے والی غلطی پر ملامت نہیں کی؛ کیونکہ موسی علیہ السلام کو بھی علم تھا کہ آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے بخشش طلب کر لی تھی اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرما کر انہیں اپنا پسندیدہ بنا لیا تھا اور انہیں ثواب سے نواز کر ان کی رہنمائی بھی فرمائی، ویسے بھی توبہ کرنے والا ایسے ہی ہو جاتا ہے جیسے اس سے گناہ سر زد ہوا ہی نہیں۔
اگر موسی علیہ السلام سیدنا آدم علیہ السلام کو گناہ کرنے پر ملامت کرتے ہوتے تو آدم علیہ السلام نے انہیں جواب میں یہ کہنا تھا کہ: ہاں مجھ سے گناہ ہوا اور میں نے توبہ کر لی تھی اور اللہ تعالی نے میری توبہ بھی قبول فرمائی، پھر سیدنا آدم علیہ السلام بھی انہیں بدلے میں کہتے: تم وہی موسی ہو جس نے ایک بندہ قتل کر دیا تھا، اور آپ وہی ہو جنہوں نے تورات کی تختیاں گرا دی تھی وغیرہ وغیرہ، بلکہ یہاں موسی علیہ السلام نے مصیبت کا تذکرہ کیا ہے تو آدم علیہ السلام نے تقدیر کو حجت بنایا ہے۔" ختم شد
دیکھیں: "الاحتجاج بالقدر " از شیخ الاسلام ابن تیمیہ : ( 18 – 22 )
"تقدیر میں جو بھی مصیبت لکھی ہو اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا واجب ہے؛ کیونکہ یہی اللہ تعالی کو اپنا رب ماننے کا عملی مظاہرہ ہے، جبکہ گناہ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہے، اگر کسی سے گناہ ہو جائے تو اللہ تعالی سے بخشش مانگے اور توبہ کرے [نہ کہ تقدیر کو عذر کے طور پر پیش کرے۔ مترجم] لہذا معصیت پر توبہ کرے اور مصیبت پر صبر کرے۔ " شرح الطحاویہ: صفحہ: 147۔
نوٹ:
کچھ علمائے کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ تائب ہو جائے اور کوئی توبہ کرنے کے بعد ماضی کی غلطی پر عار دلائے تو اس شخص کے لیے تقدیر کو اپنے لیے دلیل بنا نے کی گنجائش ہے۔
لہذا اگر کسی توبہ تائب ہونے والے شخص سے کہا جائے: تم نے فلاں فلاں غلطی کیوں کی تھی؟ اور اس سوال کے جواب میں وہ کہے: اللہ تعالی نے میری تقدیر میں لکھا ہی ایسے تھا، اور اس کے بعد میں نے گناہ سے توبہ اور استغفار بھی کر لیا تھا، تو اس شخص سے یہ بات قابل قبول ہو گی؛ کیونکہ یہاں اس شخص سے ہونے والا گناہ محض معصیت نہیں اس کے لیے مصیبت بن چکا ہے، یہ شخص اپنی حکم عدولی کی وجہ سے ہونے والی معصیت کے لیے تقدیر کو بطور عذر پیش نہیں کر رہا بلکہ گناہ کی شکل میں اس پر آنے والی مصیبت کے لیے تقدیر کو بطور حجت پیش کر رہا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ گناہ اور معصیت بھی مصیبت ہوتی ہے، پھر یہ بات اس وقت ہو رہی ہے جب گناہ سر زد ہو کر معافی تلافی بھی ہو چکی ہے، اور گناہ کرنے والا اپنی غلطی تسلیم کر چکا ہے اور اپنے آپ کو مجرم قرار دے چکا ہے۔ لہذا ایسی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی کہ انسان کسی توبہ تائب ہونے والے شخص کو ماضی کے گناہ پر ملامت کرے؛ کیونکہ ہر چیز کے نتائج معتبر ہوتے ہیں نقطہ آغاز معتبر نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم
مزید تفصیلات کے لیے مطالعہ کریں: ( أعلام السنة المنشورة : 147 ) ( القضاء والقدر في ضوء الكتاب والسنة ، از ڈاکٹر عبد الرحمن المحمود) و ( الإيمان بالقضاء والقدر ، از الشیخ محمد الحمد) نیز تسہیل کے لیے ان دونوں کتابوں کی الشیخ سلیمان الخراشی کی تلخیص بھی ملاحظہ کریں جو کہ : ( تركي الحمد في ميزان أهل السنة ) کتاب کی صورت میں موجود ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب